وادی میں وائرس کا پھیلاؤ اوربھارتی جنرل کااحمقانہ بیان

عالم انسانیت کو درپیش اس اَن دیکھی خوفناک اور مہلک وبا کو کھوجنے کی کیفیتوں پرغوروفکراورتحقیق وجستجو کرنے والوں کوپہلے مرحلے میں ایک چیز بہت اچھی طرح سمجھتی آتی جارہی ہے کہ اس’’جرثومہ‘‘کو جسے’’کویڈ19‘‘ کانام دیا گیا ہے اس کی دہشت ناک تباہ کاریوں کی زد پر پوری کائنات میں صرف انسان کی ذات ہے،جس کی بنا پر دنیا اس عالمگیروبا میں گھرتی ہی چلی جا رہی ہے اور مزید گری رہی ہے اب سمجھ میں آیا یہ انسان بھی ہمیشہ زندہ رہنے کی تمنا میں کتنا متکبر اورکس قدرمغرور ہوجاتا ہے‘سمجھتا ہے وہ ہی سب سے زیادہ پائیدار ہے سب سے اونچا ہوجانے کی آرزو کی ہوس میں بھول بیٹھتا ہے کہ کبھی اپنے اسی زعم کے دبدبہ میں وہ خود منہ کے بل گربھی جائے گاقدرت کی لافانی طاقت کا منکر خطا کا سراسر پتلا یہ انسان کسی ان دیکھے ’’جرثومہ‘‘کی وجہ سے کتنا پست اور ذلیل ہوکر رہ جائے گا، اللہ تبارک وتعالیٰ کی بلند وبالا عظمتوں اور الہی ہیبتوں کو چیلنج کرنے والوں کی دفاعی بھگدڑ اس وقت فی زمانہ ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اپنے کانوں سے سن رہے ہیں کہاں گئی اْن نام نہاد دنیاوی بڑی طاقتوں کی ٹیکنالوجی کے دعوے؟ سب کے سب رہ گئے کل تک جوکہتے تھے پاکستان کو ہم پتھروں کے دور میں دھکیل دیں گے جو کہتے تھے سعودی عرب کی حکومت ہماری ’’رہین منت‘‘ہے ہم ’’یونی پولر‘‘ طاقت ہیں، دنیا کو ہم اپنی انگلیوں پر نچاتے رہیں، گے اس دنیا میں ہمارے نام کا ’’سکہ‘‘(ڈالر)چلتا ہے یقینا اس مہلک ترین جرثومہ نے دنیا کے کسی حصہ کو بخشا نہیں اور معلوم نہیں آگے ہوگیا کیا؟ لیکن اپنے پہلے مرحلے میں اس عالمی تباہ کن جرثومہ نے مغربی دنیا کے کسی بھی ممتاز ملک میں کم تباہی نہیں پھیلائی دہشت ووحشت الگ‘امریکا کے ساتھ جو کچھ ہوا یا اب تک ہورہا ہے اْس کا اندازہ کسی کو کیا ہوگا خود امریکا سے پوچھ لیں امریکی میڈیا والوں کی ’’ٹون‘‘سن لیں ’’اللہ اکبر‘‘عالم اسلام کے ممالک شام،ایران،عراق،لیبیا اور افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی عالمی دہشت گردی کے نام پر؟‘‘کیا آج کل مغربی اور امریکی متمدن اور تہذیب یافتہ دنیا میں قدم قدم پر جس افسوس ناک وافر انداز میں گھر گھر خوف کاعالم ہے گھرگھر سے تابوت نکل رہے ہیں، یہ سب کیا ہے؟ نہ پینٹاگان سے کوئی آوازاٹھ رہی ہے نہ روزانہ کی بنیاد پر وائٹ ہاوس سے کوئی پریس ریلیز کیوں نہیں جاری ہورہا ؟ برملا تسلیم کیوں نہیں کیا جارہا کہ ’’موت کے سوداگروں کے گھروں میں اب موت نے خود ڈیرے ڈال دئیے‘ یہ مقام لمحہ فکریہ ہونا چاہیئے کیسی ہولناک افراتفری اور نفسانفسی سے دنیا کے متکبروں کا سامنا ہوگیا ہے ’’یہ کیا دہشت وحشت نہیں ہے‘‘اب گھروں میں چھپ کر بیٹھ گئے کہاں گئیں اتحادی فوجیں کہاں گیا وہ نیٹو؟ذرا اپنے اپنے گربیانوں میں سبھی جھانک لیں کچھ حیا کریں کچھ تو شرم کریں کیا یہ ’’جرثومہ‘‘کسی ’’القاعدہ ‘‘تو نہیں بنایا ؟کئی سلگتے سوال نہیں پوچھتے لیکن افسوس صدہا افسوس !یہاں جنوبی ایشیائی ممالک میں ہم پاکستانیوں کے لئے بھی یہ دن کوئی بہت اچھے دن نہیں ہیں امریکا اگر تادم تحریر40 سے45 ہزار امریکی یکایک موت کے منہ میں چلے گئے اور وہاں لگ بھگ 2لاکھ66 ہزار جبکہ پوری دنیا میں 24 لاکھ25 ہزار لوگ اس مہلک ترین وبا میں مبتلا ہیں تو دیگر جنونی ایشیا ئی ممالک اور ایشیائی پیسفک ممالک میں بھی یہ وبا اپنے پنجے گاڑھے ہوئے ہے پاکستان میں اب تک تقریبا 8 ہزار5 افراد اس وبا کا شکار ہوئے اور پاکستان بھر سے اب تک ملنے والی اطلاعات کے مطابق اموات قریبا دوسو پاکستانیوں کی ہوئی ہے دنیا کی طرح ہم
پاکستانی قوم کو بھی اس مقام پر ٹھہر کر پیچھے مڑکر ہرصورت دیکھنا پڑے گا اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرئے گا کہ یہ کویڈ انیس کوئی آسمانی آفت ہے یا کوئی شیطانی سازش؟ لیکن بحیثیت ہم پاکستانی مسلمان سمجھتے ہیں کہ ہم میں سے کسی کو فکری پیمانوں پر یہ سوچھنا چاہیئے کہ’’کیا ہم سے کہیں ہمارا پروردگار رب العالمین‘‘ جس نے ہمیں اپنی ہر نعمتوں سے نوازا ،کیا اپنے پروردگارعالم رب العا لمین کا تہہ دلوں سے شکر اداکرنے میں ہم سے کوئی غفلت تو نہیں ہوگی؟کیا بحیثیت عام انسان ہم نے اپنے کسی محسن کو ناراض تو نہیں کیا یہ مقام خود احتسانی کامقام ہے اللہ تعالیٰ قرآن حکیم میں واضح ارشاد فرماتا ہے’’جس کسی انسان نے اپنے محسن انسان کا شکر ادا نہیں کیا گویا اْس نے اپنے ربّ اللہ کا شکر ادا نہیں کیا‘‘ امریکا جیسا متکبر اورنخوت وعجب کا شکار ملک آج کتنا چھوٹا ہوچکا ہے، کہاں کہاں ہاتھ نہیں پھیلا رہا دنیا کو ’’تڑیاں‘‘لگانے والا ’’بکری‘‘بنا ہوا ہے، واقعی آج ہمیں یقین ہوگیا کہ یہ دنیا ’’گلوبل ویلج‘‘ہے جو ایسٹ میں ہورہا ہے وہ ہی ویسٹ میں ہورہا ہے ساوتھ اور نارتھ چہارسوایک ہی خطرناک بیماری میں ملک کے ملک مبتلا ہو رہے ہیں، اس عالمی وبا نے عالمی امتیازات یکسر مٹاڈالے اورعالمی معالجین کی ٹیمیں کوروناکویڈ 19 کی ویکسین بنانے میں اپنی اپنی حدود میں منہمک‘ساری دنیا اپنا اپنا ہوش کھوبیٹھی ‘سیاست،ثقافت،ادب اورزندگی کے ہررنگ پراسی وبا اور اسی وبا کے نتیجے میں رونما ہونے والی موت کا رنگ غالب آچکا ہے ،معاشی امور کے ماہرین کہتے ہیں چند ماہ بعد جب زندگی ایک نئی جنم لے کر(شائد) دوبارہ اٹھ کھڑی ہوگی تو اسے معاشی بدحالی کے ایک اوربڑے عفریت کا سامنا کرنا ہوگا’’ایک معمولی جرثومہ‘‘ کے اُٹھائے ہوئے طوفان کی اثر اندازی اس قدر گہری ہوگی یہ برسوں تک پوری دنیا کو معاشی بدحالی کے طوفانی بھنور میں گردش دیتی رہے گی باتیں تو بہت سی کی جاسکتی ہیں لیکن یہاں’’قانون عروج زوال‘‘کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہم اپنے گھر میں رہتے ہوئے ذرا پڑوسی ملک بھارت کے اْن بے ضمیراور تاریخ ہذا کے بدکردار ہندوتوا کے جنونیوں سے اور اْن کے حکمرانوں سے یہ ضرور پوچھتے چلیں، جنہوں نے گزشتہ برس 5 اگست کو مقبوضہ وادی میں اسی لاکھ سے ایک کروڑ مسلمانوں کو کرفیونما لاک ڈاؤن میں محصور کردیا تھا اب کیوں وہ دیش میں جگہ جگہ لاک ڈاؤن کرتے دکھائی دیتے ہیں اس دوران ایک عجب مضحکہ خیز اور انتہائی بیوقو فانہ قسم کا بیان مقبوضہ وادی میں تعینات بھارتی فوج کے ایک لیفٹینٹ جنرل کا سامنے آیا جس میں وہ یہ کہتا ہے کہ ’’مقبوضہ وادی میں ’’کویڈ 19‘‘کا پھیلاو کی وجہ کنٹرول لائن سے آنے والے پاکستانی کشمیری پھیلارہے ہیں‘‘بھارتی میڈیا والے اسی جنرل سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ مقبوضہ وادی میں تو کنٹرول لائن سے دیوہیکل’فینسنگ سرحد‘کو پار کرنے والے پاکستانی کشمیری یہ جرثومہ مقبوضہ میں پھیلانے کا سبب ہیں ذرا یہ تو بتائیں کہ’پٹنہ میں، کیرالامیں، دہلی ‘کے علاوہ دیش بھر کے اور علاقوں میں کورونا وائرس کی رفتار دن بدن تیز سے تیر تر کیوںہو رہی ہے؟کبھی بھارتی نیتا اس کا الزام بھارتی مسلمانوں کی تبلیغی جماعت پر کبھی پاکستان پر لگا نے جیسی احمقانہ باتیں کررہے ہیں، لہذا نئی دہلی کے حکام امریکاسے سبق لیں، جس کی زبان اورجس کا لہجہ وقت کے ساتھ ساتھ دھیما ہو گیاہے امریکی حکام تنہائیوں میں بیٹھ کر اپنی عالمی فاش غلطیوں پر نادم تو ہورہے ہونگے، ہاں خوب یاد آیا مودی کیسے ببانگ دہل اعلان کرتا تھا کہ ’’ہم پاکستان کو دنیا میں تنہا کردیں گے‘‘کچھ آیا کسی کی سمجھ میں؟اسے کہتے ہیں’ قانون عروج وزوال‘آج صرف ایک مودی پر ہی کیا منحصر پورا بھارت قرنطینہ‘‘بننے پر ازخود مجبور ہے یہی حال امریکا اور برطانیہ کا ہے دنیا کی دیگر خودسر اور عالمی سرکش سبھی کے سبھی ’’تنہائی‘‘ کو اپنے لئے’’محفوظ‘‘ مقام سمجھ رہے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن