بزدار روز نئے ترقیاتی منصوبے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں

ندیم بسرا 
پاکستان کی  عوام نے گزشتہ ڈیڑھ سے دو ہفتے کافی تناومیں گزارے ہیں مگر اب حالات کافی  بہتر ہیں شاید وزیراعظم عمران خان کی تقریر سے معاملات درست ہوئے ہیں یا کسی ’’ایک کردار‘‘ نے یہ معاملا احسن طریقے سے حل کیا ہے  لیکن ایک بات تو طے ہے کہ حکومت تمام فریقین کو ساتھ لیکر چلنا چاہتی ہے یقینا اس معاملے میں حکومت کی دلچسپی سے یہ بات واضح  ہے۔ خیر اب تو بہت ساری چیزیں درست سمت کی جانب جارہی ہیں ۔وزیراعظم عمران خان نے اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرتے ہوئے اپنے پرانے وزیروں کو’’ نیا وزیر ‘‘بھی بنا دیا ہے بعض وزراء کو تو صرف بجٹ کی تیاری اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے وقتی طور پر کسی سے مانگا گیا ہے ہوسکتا ہے کہ بجٹ کے بعد ادھار مانگے گئے وزیر کو دوبارہ واپس کرنا پڑے، اس طرح رمضان المبارک اور عید سمیت جون کا ماہ آسانی سے گزر جائے گا ۔
پی ٹی آئی کی حکومت میں جتنے بھی سکینڈل فوری سامنے آتے ہیں وہ اپنے انجام سے پہلے ہی ٹریک بدل لیتے ہیں ۔شوگر سکینڈل اور سٹہ مافیا کا کچھ ہفتے منظر عام پر رہنے والا سیکنڈل اب کسی دوسری جانب جاتا نظر آرہا ہے کیونکہ جس تیزی سے اس پر کام شروع ہوا اور جہانگیر ترین سمیت متعدد کا نام سامنے آیا تو لگ یہی رہا تھا کہ عمران خان کسی کو نہیں چھوڑیں گے مگر وقت کے ساتھ ساتھ اس کیس میں بھی نرمی آتی گئی ۔کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے درمیان’’ ہیلو  ہائے‘‘ اس کیس سے کئی ماہ قبل ہی کم ہونا شروع  ہوگئی تھی جس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جارہی تھی کہ عمران خان کو کچھ رپورٹس پہلے سے ملنا شروع ہو گئی ہو ں گی کہ ایسا ہو رہا ہے اور اس میں مبینہ طور پر یہ لوگ ملوث ہو سکتے ہیں شاید اسی وجہ سے دونوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہو ں مگر بات وہی ہے کہ شوگر سکینڈل سامنے آیا تو لگتا تھا کہ ’’کوئی بھی نہیں بچے گا ‘‘مگر اب کیا ہوا کہ اس کیس کے بعد حکومتی وزراء بھی جہانگیر ترین کے ساتھ مل گئے اور عمران خان پر ایک قسم کا دبائو بڑھایا کہ وہ ان سے ملاقات کر لیں اب یہی بتایا جارہا ہے کہ ملاقات باقاعدہ طور پر ہوجائے گی ۔دوسری جانب اپوزیشن جو اسمبلیوں میں ایک بار پھر پرجوش نظر آنے کے لئے تیاری کررہی ہے واقفان حال کا دعوی ہے کہ شہباز شریف ضمانت کے بعد مسلم لیگ ن کو باقاعدہ ٹیک آوور کر سکتے ہیں اور اس کے لئے انہوں نے کافی عرصے سے تیاری کررکھی ہے، کیونکہ موجودہ صورت حال میں نواز شریف کا ووٹ بنک کم ہی ہوا ہے حالانکہ ڈسکہ کے الیکشن میں ن لیگ جیتی ہے مگر ڈسکہ کے عوام نے مہنگائی اور بیروزگاری کے خلاف ووٹ دے کر ن لیگ کو جتوایا ہے ۔شہباز شریف اب خود سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے خواہاں ہیں ۔جس طرح کے سیاسی حالات بن چکے ہیں اس میں اپوزیشن سمیت خود پی ٹی آئی کے بیشتر اراکین شہباز شریف کو سیاسی کھیل کا حصہ بنانے کو تیار ہیں ۔خود پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو بھی کئی موقعوں پر اس کا ظہار کر چکے ہیں۔ حالانکہ وہ شہباز شریف کا جوش خطابت کئی بار دیکھ چکے ہیں کہ وہ تقریر کے دوران کئی بار مائیک بھی گرا دیتے ہیں مگر بلاول بھٹو نے تربیت چونکہ آصف علی زرادری سے لی ہے اس لئے وہ اپنے باپ کی دی ہوئی ٹریننگ سے ہی استفادہ کرتے  ہیں ۔اس کے باوجود کہ مریم نواز سے بھی پیپلز پارٹی نے پی ڈی ایم کی ادھوری تحریک میں کافی اچھے سیاسی تعلقات قائم رکھے تھے ۔دوسری جانب پنجاب کی بات کی جائے تو وزیراعلی پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھی مکمل سیاسی اور عوامی ترقی کا محاذ سنبھال رکھا ہے حالانکہ وزیراعظم عمران خان کے ہر دورہ لاہور کے موقع پر’’ ان کے  چاہنے والے ‘‘ یہ افواہیں ضرور پھیلا دیتے ہیں کہ پنجاب میں نیا وزیراعلی لانے کی تیاری کی جارہی ہے مگر ویزراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے تقریبا گزشتہ تین برسوں سے جس طرح اپنے مثالی کاموں سے پنجاب کے عوام کا دل جیتا ہے ۔اسی وجہ سے پنجاب میں ترقیاتی کاموں کا جال بھی بچھایا جارہا ہے نئی سڑکیں ،نئے ہسپتال ،سرمایہ کاری کے لئے نئے منصوبے اور خاص کر پسماندہ علاقوں کی ترقی کے لئے جوکام بھی کئے ہیں ان کے لئے وزیراعلی واقعی قابل تعریف ہیں کیونکہ جنوبی پنجاب کے بعض علاقوں میں جہاں آج تک کوئی بھی حکمران نہیں گیا وہاں کے دورہ کئے ہیں اسی وجہ سے راوی اربن پراجیکٹ ،ہاوسنگ پراجیکٹس کامیابی سے تعمیری مراحل کی جانب بڑھ رہے ہیں پنجاب کے عوام یہ چاہتے ہیں کہ وزیراعلی ہر تحصیل میں کم ازکم پانچ سو بیڈرز کا ہسپتال بنائیں اور ہر ضلع میں ایک سے ڈیڑھ ہزار بیڈز پر مشتمل نیا ہسپتال ضرور قائم کریں ۔ مقامی انڈسٹری کو فروغ دینے سے روزگار کے مواقع پیدا ہونگے اور ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی ضرور قائم کیا جائے اس قسم کے اقدامات سے پنجاب کا شمار ترقی یاقتہ صوبوں میں ہوگا ۔

ای پیپر دی نیشن