صرف قرضے نہیں بڑھ رہے

وزیراعظم نے تسلیم کیا ہے قرضے بڑھ رہے ہیں‘ قرضے ہی نہیں ہر چیز بڑھ رہی ہے۔ اولاً مہنگائی بڑھ رہی ہے‘ بے روزگاری بڑھ رہی ہے‘ فحاشی عریانی‘ بے ایمانی‘ نوسربازی‘ رشوت‘ جرائم‘ گندگی‘ باہمی اختلافات سیاسی تنائو کیا کچھ نہیں بڑھ رہا۔ واپسی کیلئے مزید قرض لینا پڑ رہا ہے۔ کرونا سے لاکھوں بے روزگار‘ کروڑوں مقروض ہو گئے۔ ن لیگ سے پندرہ ہزار ارب زیادہ واپس کئے۔ یہی پندرہ ہزار انفراسٹرکچر پر لگتے تو ملک بدل جاتا۔ قسطیں بڑھتی جارہی ہیں‘ وزیر بھی نہیں جانتے دو سال کتنی تنگی سے گزارے۔ بعض وزراء کو تو اپنی وزارت کا الف سے ی تک سارا علم نہیں کہ وزارت کے اوپر سے نیچے تک کتنے لوگ اور محکموں کی تعداد کتنی ہے۔ بجٹ کتنا ہے‘ اس میں سے ترقیاتی اور غیرترقیاتی رقم کتنی ہے۔ وزیر کی کارکردگی سے وزارت کی ترقی کا گراف کتنا اوپر کو گیا ہے۔ وزارت تعلیم نے تعلیمی ادارے بند رکھنے کے سوا کیا کیا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو اپنی باندی بنوانے کیلئے آرڈی ننس جاری کرایا‘ کرنٹ اکائونٹ کا خسارہ تین ارب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ وزیراعظم کارکردگی سے مطمئن نہیں‘ اس لئے ایچ ای سی کے سربراہ کو ہٹایا۔ کس کی کارکردگی اطمینان بخش ہے‘ وہ کس کس کو ہٹائیں گے‘ چیف جسٹس آف پاکستان کمشنر کراچی کی کارکردگی سے نالاں ہوئے تو کمشنر کو فارغ کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ سیاست ہچکولے کھا رہی ہے۔ سیاست دانوں کا صبر کا پیمانہ چھلک رہا ہے۔ جہانگیر ترین کو کچھ لوگوں نے مسیحا سمجھ لیا ہے۔ ایف آئی اے 14 شوگر ملوں کو دبوچنے جارہی ہے۔ پاکستان پر بیرونی قرضوں اور واجبات کا مجموعی حجم 90 ارب 12 کروڑ ڈالر ہے۔ نیپرا نے بجلی 64 پیسے فی یونٹ مہنگی کردی۔ معاشی طاقتوں کی تنظیم جی۔20 کی جانب سے گزشتہ سال بعض کمزور معاشی حیثیت کے حامل ممالک کے قریب 12 ارب ڈالر کے قرضوں کی واپسی میں سہولت‘ غریب اور کرونا سے متاثر ممالک قرض کی یہ رقوم 2022ء سے 2024ء کے دوران سود سمیت واپس کرینگے۔ ترقی پذیر ممالک کی معیشت کو کرونا سے حقیقت میں کتنا نقصان ہوا‘ ابھی اس کا حساب بھی نہیں کیا جا سکا۔ آئی ایم ایف کے نزدیک کرونا کے معاشی اثرات اچانک‘ شدید اور گہرے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کو ان حالات سے نکلنے میں زیادہ وقت لگے گا۔ پاکستان کی صرف 0.2 فیصد آبادی کو ابھی تک کرونا ویکسین لگائی جا سکی ہے۔ ماسک جیسی معمولی چیز کا استعمال بھی بہت کم ہے۔ حکومتی کارکردگی کے بارے میں ہر کسی کے تحفظات ہیں۔ 2400 روپے فی من گندم درآمد کرنے کیلئے تو آسانی سے تیار ہو جاتے ہیں لیکن اپنے کاشت کار کو 1800 روپے فی من سے زیادہ قیمت دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ زیادہ تر وزراء میدان عمل کے شہسوار نہیں۔ باتوں‘ بیانات اور وعدوں کے میدان کے رستم ہیں۔ 
مہنگائی حفیظ شیخ کو لے ڈوبی‘ حالانکہ مہنگائی کے ذمہ دار درجنوں اور بھی ہیں۔ چینی‘ آٹا‘ پٹرول مافیا کو مہنگائی سطح آب پر رکھے ہوئے ہے۔ منڈیوں کے آڑھتی ذخیرہ اندوزوں کو مہنگائی ڈبونے سے کیوں ڈرتی ہے۔ حفیظ شیخ کی بے خبری کا یہ عالم تھا کہ انہیں اسلام آباد میں اشیا کے نرخ ناموں کا علم نہ تھا۔ انہوں نے کبھی ٹماٹر‘ ادرک‘ سبزیاں خریدی ہوتیں تو پتہ ہوتا۔ عمران خان کے عہد میں وزیروں مشیروں‘ معاونین خصوصی اور اعلیٰ بیوروکریسی کو شطرنج کے مہروں کی طرح تیزی سے ادھر سے ادھر کیا گیا۔ اس سے پہلے کسی عہد حکومت میں اس شتابی سے تبدیلی کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ تھانیدار روز بدلتے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ کوئی گوالمنڈی سے ٹائون شپ چلا جائے تو اسکی فطرت اور چال ڈھال تو نہیں بدلتی۔ تھانوں کا چلن کبھی بدلا نہ بدلے گا۔ تھانیدار بن کر لب و لہجہ ہی بدل جاتا ہے۔ زبان پر آدھی غلیظ گالیاں اور آھی پر لعن طعن ہوتی ہے۔ ہاتھ کا تو بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ پولیس کو ہراساں کرنے کے بہانے چاہئیں‘ ماسک کو ہی لیجئے جس کو چاہا پکڑ لیا‘ پیسے بٹورے چھوڑ دیا۔ پیسے دینے سے انکارکیا تو چھ ماہ قید کا خوف لٹکا دیا۔ ایسے میں شہری خودبخود جیب ڈھیلی کردیتا اور پائوں پر گر جاتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں حفیظ شیخ پہلا وزیر خزانہ ہے جسے مہنگائی کی چارج شیٹ دیکر فارغ کیا گیا ہے۔
 ایف بی آر کو 32 ماہ میں چھٹا چیئرمین ملا ہے۔ آئی ایم ایف سے آئندہ بجٹ میں 1200 ارب کے اضافی ٹیکس شامل کرنے کی حامی بھری گئی ہے جبکہ رواں مالی سال کے آخری تین ماہ میں بجلی کی قیمتوں میں بھی پانچ روپے فی یونٹ اضافہ کیا جائیگا۔ اکتوبر تک بجلی کے نرخوں میں مزید 36 فیصد اضافہ ہوگا۔ پٹرولیم لیوی کی شرح رواں سال کے دوران 30 روپے فی لٹر تک لے جانے پر اتفاق ہوا ہے۔ پٹرولیم لیوی سے ریونیو کا ہدف رواں مالی سال کے بجٹ میں طے کئے گئے 450 ارب کے مقابلے میں 607 ارب روپے کر دیا جائیگا۔ جنرل سیلز ٹیکس اور انکم ٹیکس میں اضافے کی صورت میں مزید پانچ سو ارب روپے کا بوجھ ڈالا جائیگا۔ آئندہ کوئی ٹیکس چھوٹ ایمنسٹی نہ دینے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ یوں آئی ایم ایف کی طرف سے چھ ارب ڈالر کے جاری قرض کی بقایا اقساط حاصل کرنے کیلئے 12 مزید شرائط پوری کرنا ہونگی۔ پاکستان کو اگلے بارہ ماہ میں بیرونی ادائیگیوں اور درآمدی ضروریات پوری کرنے کیلئے 27 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ چین ان مقاصد کیلئے پاکستان کو دس ارب 80 کروڑ ڈالر فراہم کریگا۔ چین نے پاکستان کو اڑھائی ارب ڈالر کے کمرشل قرضے بھی دیئے ہیں اور اگلے سال مزید چار ارب 40 کروڑ ڈالر دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اگلے بجٹ میں بجلی اور گیس کے صارفین کیلئے اینٹی سبسڈی پالیسی متعارف کراکر غیرضروری سبسڈی کا خاتمہ کیا جائیگا۔ آئی ایم ایف نے یوٹیلٹی سٹورز کے آڈٹ کا 30 اپریل تک ہدف دیا ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے بعد عزیز ہم وطنو سے اضافی 1500 ارب وصول کئے جانے ہیں۔

پروفیسر خالد محمود ہاشمی

ای پیپر دی نیشن