وطن عزیز کے صوبہ پنجاب میں گندم کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔اسی صوبے کے محنتی کسانوں کی محنت کی وجہ سے پاکستان گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا تھا۔لیکن پچھلے چند سالوں سے پاکستان کو گندم کے بحران کا سامنا ہے جس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں۔
شدید موسمی حالات۔کھادوں اور سپرے کا ناقص ہونا اور بھی بہت سی وجوہات شامل ہیں۔گندم کی خریدو فروخت میں کسانوں کو حکومت پنجاب کی مسلط کردہ سرکاری مشینری اور سرمایا دار دونوں بیدردی سے لوٹتے ہیں
ہوتا یہ کہ حکومت پنجاب ہر سال اپریل کے وسط یا آخر میں کسانوں سے سپورٹ پرائس پر گندم خریدتی ہے لیکن پنجاب میں گندم مارچ میں ہی مارکیٹ میں آ جاتی ہے۔6 ماہ سے فاقوں کا شکار کسان اسے جلد۔ از جلد بیچ کر اپنی ضروریات پور ی کرنا چاہتا ہے بلکل اسی وقت ارب پتی تاجر مارکیٹ میں کود پڑتے ہیں اور اونے پونے داموں گندم کسان سے ہتھیا کر اپنی فیکٹریاں اور خفیہ گودام گندم سے بھر لیتے ہیں۔ 1600 میںخریدی گئی گندم کو 1800 روپے حکومت کو بیچ کر خوب منافع کماتا ہے گندم کو مارکیٹ تک لانے کیلئے کسان کو 100 کلوگرام کے وزن کے پلاسٹک بیگ دیے جاتے جس میں گندم بھر کر کسان تاجر کی دکان یا آڑھت پر لے آتا ہے
جب میزان ہوتا ہے تو 1 کلو فی من کوالٹی کٹ کے نام پہ کاٹ لیا جاتا ہے یوں کسان کو 5•37کلو گندم کی قیمت مل پاتی یوں اڑھائی کلو گندم مفت میں لے لیتا ہے۔اگر کبھی کوئی کسان دلیری کر کے اپنی گندم سرکاری قیمت پر بیچنے کیلئے محکمہ خوراک پاس لے جائے تو وہاں اسے شدید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے سب سے پہلے بار دانہ کے لئے سرکاری افسر کو درخواست دینی پڑتی ہے پھر سیکورٹی کی رقم بنک مین جمع کراکر بوریاں حاصل کی جاتی ہیں۔پھر گندم کو بوریوں میں بھر کر سرکاری افسر کے رحم وکرم سرکاری گودام میں لایا جاتا ہے جہاں فوڈ گرین افسر کے منشی بھوکے بھیڑیوں کی طرح کسان کے منتظر ہوتے ہیں۔ جو سب سے پہلے 1 بوری کوالٹی کٹ کے نام پر لے لیتے ہیں۔پھر 2 کلو فی بوری اضافی وزن لیا جاتا ہے۔پھر کسان سے ان لوڈنگ کے 15 روپے فی بوری لیے جاتے ہیں جو حکومت نے 7 روپے فی بوری مقرر کیا ہوا ہے۔پھر منشی صاحب گندم سرکاری ریٹ پر بیچنے کا 500 روپے ایک ٹرالی کا انعام وصول کرتا ہے۔کسان سے کہا جاتا اگلے دن اپنی گندم کا بل آکر لے جائے۔
اگلے دن کسان منشی کے پاس بل لینے پہنچ جاتا ہے جہاں 200 روپے بل بنا کر دینے کے لئے جاتے ہیں۔اگلے دن کسان بل لے کر بنک پہنچ جاتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے آج تو چھٹی ہے کل آ جانا۔اگلے دن کیونکہ بینک میں رش ہونے کی وجہ سے اس باری آنے تک کیش ختم ہو چکا ہوتا ہے غرض 8 دن کی لگاتار کوشش کے بعد کسان پیسے لینے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور توبہ کرتا سرکاری ریٹ پہ گندم فروخت کرنے سے۔
اگلے سال وہ کسان سیدھا مڈل مین کے پاس جاتا ہے جو اس کی گندم 250 کم ریٹ پر لے کر خود بیچتا ہے ایسے میں کسان کی محنت کرپٹ مافیا کی نذر ہوجاتی ہے ہرسال کسان بے چارہ کرپشن کا شکار ہوتا ہے سوال یہ ہے کہ اس غریب کی کون سنے گا؟