پچھلے کچھ عرصے سے خاص و عام میں نامور بھارتی اداکار راجکپور اور دلیپ کمار کے گھروں کو قومی، ثقافتی اور تاریخی ورثہ قرار دینے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ قیمتوں کے تعین میں جو رکاوٹیں ہیں وہ دور ہوتے ہی کے پی کے کی حکومت یہ دونوں مکانات مو جودہ مالکان سے خرید کر ثقافتی ورثے کے طور محفوط کر لے گی۔ اس کہانی کی شروعات اُس وقت ہوئیں جب صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہء آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر آف آرکیالوجی اینڈ میوزمز ڈاکٹر عبدالصمد نے ڈپٹی کمشنر پشاور کو خط لکھا کہ مذکورہ محکمہ اِس سائٹ ( ان مکانات) کو آثارِ قدیمہ ایکٹ کے تحت محفوظ آثار قرار دینا چاہتا ہے تا کہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ رہے اور ثقافتی سیاحت کو فروغ مل سکے۔ خط میں مزید کہا گیا تھا کہ اگر یہ مکانات نجی ملکیت میں ہیں تو اسے لازمی طور پر حصولِ اراضی کے قانون کے تحت حاصل کر لیا جائے۔ذرائع کے مطابق اسی خط کی بنیاد پر ڈپٹی کمشنر پشاور نے کپور حویلی اور دلیپ کمار کے گھر کو حاصل کرنے کے کام کا آغاز کیا تھا۔ دلیپ کمار کا گھر پشاور کے مشہورِ عالم ’ قصہ خوانی بازار ‘ کے محلہ خداداد میں واقع ہے۔ میں نے خود پچھلے دنوں اس بازار سے گزرتے ہوئے باہر سے دیکھا تھا۔ یہ رہائشی علاقہ اب بازار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ ہمارے ملک میں زبانی جمع خرچ تو بہت ہوتا ہے ۔ 2013 میں بھی دلیپ کمار کے اسی مکان کو اُس وقت کی وفاقی حکومت نے محض بیان کی حد تک قومی ورثہ قرار دیا تھا ۔ ’ کپور حویلی ‘ پشاور کے علاقے ’ دلگران ،میں واقع ہے۔راجکپور بھی اسی حویلی میں پیدا ہوئے تھے۔میں یہاں تو نہ جا سکا لیکن مجھے بتایا گیا کہ اس حویلی کی حالت اچھی نہیں۔ بہرحال ان دونوں مکانات کواُن کی اپنی اصلی حالت میں لا کر اِن اداکاروں سے متعلق اشیاء ، فلموں کا ریکارڈ اور دیگر یادگاریں رکھی جائیں گی۔اس کے علاوہ پشاور سے بھارت جا کر نام کمانے والے ایک تیسرے اداکار، شاہرخ خان کی اشیاء کو بھی محفوظ کیا جائے گا۔ نومبر 2014 کے قومی اخبارات میں بھی ایک خبر آئی تھی کہ اداکارہ زیبا نے اپنا مکان بیچ دیا۔اس مکان کی بہت تاریخی اہمیت تھی۔ یہاں اکثر و بیشتر ملکی اور غیر ملکی فنکار ، کھلاڑی اور سیاست دان جمع ہوتے رہے ہیں۔پھر یہ ہی وہ مکان ہے جہاں فروری 1974 میں منعقد ہونے والی دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس کے موقع پر سعودی عرب کے شاہ فیصل ٹہرے تھے۔ جب یہ تاریخی مکان فروخت ہوا تھا تو اخبارات میں اس خبر کے چرچے کے ساتھ یو ٹیوب پر ایک ویڈیو چلی جس میں ایک صاحب کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس مکان اور اس میں موجود تمام اشیاء کو اسی طرح رکھیں گے کیوں کہ یہ ایک قومی یادگار ہے۔ اس ویڈیو میں مکان کے بیرونی اور اندرونی تمام حصے دکھائے گئے۔لیکن نا معلوم وجوہات کی بنا پر اب وہ ویڈیو بسیار کوشش دستیاب نہیں۔اس کے بجائے دوسری ویڈیو گردش میں ہیں ۔ایسی ہی ایک ویڈیو کے مطابق وہ مکان پنجاب کی ایک سیاسی شخصیت نے مبینہ طور پر ستر کروڑ روپے میں خریدا تھا۔ اداکار محمد علی کے پرستاروں کے لئے اس تاریخی مکان کی ایک ایک چیز تاریخی اور اہم ہے خواہ وہ فرنیچر ، قالین، چھوٹی بڑی تصاویر ، یا سجاوٹ کی دیگر اشیاء ہوں۔ جس طرح راجکپور اور دلیپ کمار بھارت کے مشہور ترین اداکار ہیں بالکل اسی طرح سے اداکار محمد علی بھی پاکستان کے مشہور ترین اداکار ہیں۔پھر دلیپ کمار اور راجکپور کے مکان کی اس سے زیادہ بھلا اور کیا اہمیت ہو گی کہ وہ دونوں اس گھر میں پیدا ہوئے اور کچھ عرصہ گمنامی میں رہے۔اس کے علاوہ ان کے مکانات کی کوئی اور تاریخی اہمیت نہیں۔ ہاں البتہ صوبہ خیبر پختونخواہ کے محکمہء آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر آف آرکیالوجی اینڈ میوزمز اِن کو محفوظ آثار قرار دے کر ثقافتی سیاحت کو فروغ ضرور دے سکتے ہیں۔کیوںکہ جلد یا بدیر جب پاک بھارت کشیدگی کم ہوئی تو اِن مکانات کو دیکھنے کے لئے بھارتی سیاح یہاں آئیں گے۔ یعنی بہت جلد نو من تیل نکلنے ہی کو ہے پھر رادھا کا ناچ ہو گا۔ بات نکلی ہے تو پھر دور تلک تو جائے گی ہی !! کیا ہم میں سے کوئی صوبہ پنجاب کے محکمہء آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر آف آرکیالوجی اینڈ میوزمز کو زحمت دے سکتا ہے کہ وہ لاہور میں ہونے والی دوسری اسلامی سربراہ کانفرنس ( 1974) کے موقع پر سعودی عرب کے شاہ فیصل کا اس مکان میں ٹہرنا اور دیگر مندوبین کا اس مکان میں آنا جانا بھی اہم جان کر محمد علی صاحب کے مکان کو پاکستانیوں کی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ قرار دے ؟ سیاست کا ذوق رکھنے والے یہ ضرور جانتے ہیں کہ عوام کی رائے محترم ہوتی ہے۔ اسی طرح وفاقی اور پنجاب کے محکمہء آثارِ قدیمہ کے ذمہ داروں کو بھی علم ہونا چاہیے کہ فلمی ستاروں، نامور کھلاڑیوں ، اہلِ قلم اور دیگر مشہور ہستیوں کے پرستاروں ، سنیما بین اور فلموں کے شائقین اہم ترین لوگ ہوتے ہیں ۔ان ہی کی وجہ سے اداکار نام اور پیسہ کماتے ہیں۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ خود محمد علی صاحب نے اپنا یہ مکان ’’ علی زیب ‘‘ اپنی بنائی گئی ابتدائی فلموں کی کمائی سے ہی بنایا تھا۔بالکل یہ ہی بات فلمساز باری ملک کی فلم ’’ یکے والی ‘‘ (1957) سے ’ باری اسٹوڈیوز ‘ اور فلمساز آغا جی اے گل کی فلم ’’ دلا بھٹی ‘‘ (1956) سے ’ ایور نیو اسٹوڈیوز ‘ بنائے گئے۔ پاکستان میں ہمارے ہاں کے سنیما بین، فلمی ستاروں اور کھلاڑیوں کے پرستاروں کی کوئی اوقات اور اہمیت ہی نہیں ۔لیکن دیگر ممالک میں ایسا ہر گز نہیں۔ وہاں کے عوام اپنے پسندیدہ فنکار، قومی ہیرو اور کھلاڑیوں کے دنیا سے گزرنے کے بعد وہ مکانات جہاں وہ پیدا ہوئے خود ہی کوشش کر کے قومی اور عوامی اثاثہ بنا لیتے ہیں۔اس کارِ نیک میںکسی حد تک مقامی و شہری حکومتیں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔میں کچھ عرصہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی ریاست فلوریڈا کے شہر ’ فورٹ مائرز ‘ میں رہا۔یہاں ا مریکی قوم کے دو محسنوں کے گھر ساتھ ساتھ واقع ہیں: ٹامَس ایلوا ایڈیسن ( متوفی 1931 ) اور ہینری فورڈ (متوفی47 19)۔ان کی چھوڑی ہوئی جائدادیں اور اثاثے ظاہر ہے خاندان والوں کی ملکیت ہی بنے ہوں گے لیکن فورٹ مائر میں واقع یہ وہ دو گھر تھے جہاں ان ناموروں نے اپنے آخری ایام گزارے۔ٹامس ایڈیسن کی لیبارٹری بھی اسی حالت میں رکھی گئی ہے جیسے اس کے انتقال کے وقت تھی۔یہ امریکی قوم کا ورثہ قرار دے دیا گیا ہے۔جن صاحب نے اداکار محمد علی کا یہ تاریخی مکان خریدا ہے ان کے پاس یقیناََ کسی شے کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔ہماری اُن سے مودبانہ درخواست ہے کہ وہ اس مکان کو تاریخی ورثہ سمجھ کر وقف کر کے پاکستانی تاریخ میں خود بھی اپنا نام رقم کر جائیں !!