Covid-19 کی تیسری خوفناک لہر کے باوجود ماہ رمضان کے احترام میں بین المذاہب آہنگی کے تحت مسلمانوں کو قدرے نرم پابندیوں کے ساتھ مساجد میں نماز تراویح کی ادائیگی کی اجازت دیکر برطانوی حکومت نے ایسا غیرمعمولی اقدام کیا ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ فیس ماسک‘ ٹمپریچر چیک اور دو میٹر سماجی فاصلے پر سختی سے پابندی برطانوی سوسائٹی کا چونکہ اب ایک لازمی جزو بن چکا ہے‘ اس لئے مساجد میں اس پروٹوکول پر سختی سے عمل تو کرایا جا رہا ہے مگر تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود بعض نمازیFace Mask پہننے میں سنجیدگی کا اب بھی مظاہرہ نہیںکر رہے۔ پچاس سال تک کی عمر کے نمازیوں کو ویکسین کی پہلی اور بعض کو دوسری Dose بھی لگ چکی ہے مگر افسوس! کرونا کی بڑھتے وائرس کو وہ اس سنجیدگی سے نہیں لے رہے جس سے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا ناگزیر ہے۔ کرونا کو محض فلو تصور کرنے والے میرے ایک 14 جماعتیں پاس دوست منہ نہ ڈھانپنے اور سماجی فاصلے کی پابندی کی کھلی دھجیاں بکھیرتے ہوئے بدستور اس ضد پر قائم ہیں کہ ’’اللہ بہتر کریگا‘‘۔ انکے نزدیک موت کا ایک دن جب معین ہے تو پھر ماسک واسک اور باربار ہاتھوں کو سینیٹائزر لگانے کا کیا فائدہ؟ بنیادی طور پر اپنے ذہن کو وہ مائل کرچکے ہیںکہ ASTRA ڈوز لگوانے سے یہ وائرس اب ختم ہوچکی ہے۔ چمگادڑوں‘ مینڈکوں اور سانپوں کی ’’لذیز ڈشز‘‘ کے کھانے سے مبینہ طور پر پھیلنے والے اس وائرس کا خاتمہ اب مکمل ہوچکا ہے۔ حکومت کا یہ محض اب پراپیگنڈا ہے۔ دوست کو برطانوی انگریزی بولنے پر چونکہ اچھی خاصی مہارت بھی حاصل ہے اس لئے ویکسین کو وہ اب اس جان لیوا وبا کا حتمی تصور کرچکے ہیں جو انکی غیرسنجیدہ سوچ کا عکاس ہے۔ میں انہیں بتا رہا تھا کہ ویکسین لگوانے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ کرونا کی تیسری خوفناک لہر کا مکمل خاتمہ ہو جائیگا۔ ایسٹرا یا فائزر کا بنیادی مقصد اینٹی باڈی رول میں صرف اور صرف قوت مدافعت پیدا کرنا ہے جبکہ اس جان لیوا وبا کا اصل کھوج بدستور ایک معمہ بنا ہوا ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ دوران نماز منہ ڈھانپ کر دو میٹر فاصلے کی پابندی کو اب جزو نماز بنا لو۔ کرونا کی یہ جان لیوا وبا کب ختم ہو یا اس میں مزید خطرناک لہروں کا کب اضافہ ہو جائے‘ کسی کوکچھ معلوم نہیں۔ اور ہاں! میں نے دوست سے کہا! اللہ بہتر ہی کریگا؟ مگر کرنا ہمیں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اسکے بھجوائے قرآن مجید اور لیلۃالقدر کا واسطہ دیتے ہوئے عبادات اس خشوع و خضوع سے کرنی ہیں کہ اس موذی وبا کے ہمیشہ کیلئے خاتمے پر وہ ہم سے راضی ہو جائے۔ آپکی اس نصیحت کا بے حد شکریہ! مگر خشوع و خضوع کی بات سے قبل آپ نے گوشت فروخت کرنیوالے مسلمان دکانداروں کی قیمتیں دیکھی ہیں‘ قیمتیں کیا زیادہ ہیں؟ میں نے دوست سے پوچھا۔ زیادہ پر اس نے زور دیتے ہوئے کہا‘ پاکستان میں مہنگائی کا رونا آپ اکثر روتے ہیں‘ مگر یہاں بیشتر مسلمان دکاندار گوشت ہی نہیں‘ سبزیاں تک مہنگے ریٹ پر فروخت کررہے ہیں جبکہ انکے مقابلے میں یہاں کے بڑے گروسری سٹورز میں ایشیائیوں اور بالخصوص مسلمانوں کو حلال اشیاء انتہائی کم اور مناسب قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں۔ بنیادی وجہ تو آپ بھی جانتے ہیں مگر آپ یقیناً مجھ سے پوچھنا چاہیں گے۔ دوست بولا! یہاں بڑے سٹورز میں رمضان المبارک کی آمد سے دو ہفتے قبل ہی باسمتی چاول‘ آٹا‘ گھی‘ تیل‘ چینی‘ سویاں‘ کھجور‘ اچار ‘ فزی ڈرنکس‘ جوسز اور دالوں کی قیمت میں حیرت انگیز کمی اس لئے کردی جاتی ہے تاکہ مسلمانوں کو روزے کے حوالہ سے اس متبرک ماہ میں دوران خریداری بھاری مالی تکلیف سے دوچار نہ ہونا پڑے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بات بات پر جنہیں ہم کافر کہتے تھکتے نہیں‘ وہ ایسے کام کررہے ہیں جس کا حکم پروردگار نے ہم مسلمانوں کو دے رکھا ہے۔ روزہ اور نماز پنجگانہ کی ادائیگی کے باوجود ہمارے دل میں اپنے دوسرے مسلم بھائی کی مدد اور اسکی زندگی میں آسانی پیدا کرنے کا جب جذبہ ہی موجود نہ ہو تو ایسی نمازوں اور روزوں سے اپنے آپ کو سچا مسلمان ظاہر کرنے کا فائدہ کیا؟؟ یہ تو معاملہ اشائے خوردنی کا تھا مگر اس سے بڑی ندامت اور کیا ہوگی کہ انگلستان میں اس مرتبہ بھی ماہ صیام کا آغاز ایک دن نہیں کیا جا سکا اور قمری شہادت پر اختلافات ایک مرتبہ پھر کھل کر سامنے آگئے۔ سعودی عرب میں چاند کی پیدائش دیکھنے کے بعد لندن اور گردونواح میں پہلا روزہ 13؍ اپریل کو جبکہ شمالی انگلستان کے بیشتر شہروں میں پہلا روزہ 14؍ اپریل کو رکھا گیا اور یوں جس کا امکان تھا وہ بات ہوگئی۔ دوست کافی جذباتی ہورہا تھا۔ اور میں اسکے جذبات کی توہین بھی نہیں کرنا چاہتا تھا کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے مابین جاری اسکے پیش کردہ نقطۂ نظر میں اچھا خاصا دم تھا اسلئے اسکی توجہ اب میری قمری شہادت‘ چاند کی پیدائش اور Moon Sighting کی جانب مبذول کروانے کا سوچ رہا تھا کہ اسکی رگِ حمیت پھر پھڑک اٹھی۔
آپ قمری شہادت کی بات کرنا چاہتے ہیں‘ وہ بولا۔ ہم تو ایسے مسلمان ہیں جو ایک چاند کے حوالہ سے دو عیدیں کرنے میں ذرا بھر ندامت محسوس نہیں کرتے۔ میرے محلے کی سینئر سٹیزن گوری پھر یہ سوال کررہی ہے کہ اس مرتبہ بھی ’’روزہ‘‘ تم نے دو مختلف تاریخوں میں کیوں رکھا؟ بطور کالم نگار اب آپ ہی بتائیں کہ میں اس پرانی نسل کی نمائندہ گوری کو کیا جواب دوں؟ سوال مشکل تھا… اس لئے سوائے مسکرانے کے میں اسے کچھ بھی نہ کہہ سکا کہ روزے کے بنیادی مقصد کو میں ضائع کرنا نہیں چاہتا تھا۔