میں دیر سے گھر پہنچا تو مسئلہ آج بھی وہی تھا۔ یہ فیصلہ کون کریگا کہ آج کیا پکے گا۔اماں دیوار کی طرف منہ کئے خاموشی سے مٹر چھیل رہی تھیں اور بیگم منہ پھلائے آلو کاٹ رہی تھی۔اب پہلے یہ مٹر دیگچی کی زینت بنتے ہیں یا آلو۔یہ فیصلہ تو عدالت عظمی بھی نہیں کر سکتی تھی۔میں پہلے بیگم کے پاس پہنچا ۔یار بیگم ماں بڑی ہیں ۔تم ہی مان جایا کرو۔"کیوں؟ آخر کیا میرا دل نہیں کرتا شادی کے بعد اپنے گھر میں اپنی پسند کا کھانا پکاوں ؟" یہ سن کر میں ماں کے پاس چلا گیا۔"ماں چلیں کبھی اسکی بھی سن لیا کریں؟ "ارے یہ کیا بات ہوئی ۔ہم نے ہمیشہ اپنی ساس کی پسند کا کھانا کھایا کبھی اف تک نہ کی۔" میں خاموش ہو گیا۔کھانے کی میز پر سب خالی پلیٹ لئے ایک دوسرے کی شکل دیکھ رہے تھے کہ کیا آج بھی پچھلے ہفتے کی طرح کچھ نہ پکے گا۔چھوٹو نے کھانا آرڈر کرنے کیلئے موبائل نکال لیا۔اچانک اماں اٹھیں اور بیگم کے کاٹے ہوئے آلوؤں کی پلیٹ لیکر خاموشی سے کچن کی طرف چل دیں۔بیگم نے کچھ دیر ماں کی طرف خاموشی سے دیکھا ۔۔پھر اماں کے چھلے ہوئے مٹر لے کر وہ بھی کچن کی طرف چل دی۔کچھ ہی دیر میں کچن سے اک نئی بے حد دلفریب خوشبو اٹھنے لگی۔اگرچہ آج اماں کا مٹر پنیر اور بیگم کا آلو کی سبزی بنانے کا ارادہ تھا لیکن انہوں نے مل کر آلو مٹر تیار کیا تھا جو کہ بے حد لذیذ تھا ۔ابا کہنے لگے۔بے شک کبھی مٹر پنیر پکا لو اور کبھی آلو کی ترکاری۔بس باورچی خانے سے یہ بھینی بھینی خوشبو ہمیشہ آتی رہنی چاہئے ۔
بھینی بھینی خوشبو
Apr 22, 2022