آر ڈی اے سٹریٹ لائبریری کا قیام، احسن قدم


کتاب اور کتب بینی کا انسانی زندگی میں عمل دخل بہت قدیم ہے، بنی نوع انسان نے جب سے شعور کی منازل طے کی ہیں تب سے ہی لکھنے،پڑھنے اور لکھے ہوئے کو محفوظ بنانے کا عمل جاری و ساری ہے،کاغذ کی ایجاد سے بھی قبل انسان پتھروں،درختوں کی چھالوں اورپتوں پر ضروری تحریریں لکھنے کا ہنر سیکھ چکا تھا،چھاپہ خانے کی ایجاد سے پہلے قلمی نسخوں کی صورت میں اس دور کے انسان نے علم کو محفوظ بنا کر اگلی نسلوں تک پہنچایا،اسلامی ادوارمیںکتب خانوں کی الگ اور مستقل عمارتیں ہوتیں،جن میں متعدد کمرے ہوتے ، کمروں کے درمیان بڑے بڑے ہال ہوتے جو آپس میں ملے ہوتے‘کتابیں  دیواروں پر لگے کارنسوں پر چنی جاتیں،ہر کمرہ علم کے خاص شعبے کے لیے مخصوص ہوتا،مطالعہ کرنے والوں اور کاتبوں کے لیے الگ الگ کمرے ہوتے،بعض کتب خانوں میں ایک کمرہ موسیقی کے لیے مخصوص ہوتا جہاں ذہنی تھکاوٹ دور کی جاتی،بعض کمروں میں قالین بچھے  رہتے اور بعض میں بہترین فرنیچر اور باہر سے آنے والوں کے لیے قیام و طعام کا عمدہ انتظام ہوتا،بعض کمروں میں علمی مباحثے ہوتے،اس دوران طلبہ نوٹس لیتے اور انہیں کاغذ و قلم مفت فراہم کیا جاتا۔مہتمم کتب خانے کا عہدہ قصر شاہی میں سب سے بڑا عہدہ تصور کیا جاتا،جس پر کسی خاص آدمی کو تعینات کیا جاتا جو کتب خانے میں کتابیں تیار کرانے،جمع کرنے اور انکی محافظت کا ذمہ دار ہوتا ۔لائبریری کو ُ  ُخزانۃ الکتب‘‘ کہتے تھے  جس کا ڈائرکٹر  ُ  ُ  وکیل ‘‘  کہلاتا تھا،اسکی معاونت کے لیے ُ  ُخازن‘‘ ہوتا ،ان کے ساتھ ایک انسپکٹر ہوتا جسے ُ  ُ  مشرف‘‘  کہا جاتا،مشرف نچلے عملے کا نگران ہوتا۔ صوبائی  دارالحکومتوں میں قائم صوبائی کتب خانوں کے مہتمم اعلی گھرانوں کے افراد ہوتے اور شاہی کتب خانے کا انچارج عموماًً شاہی خاندان کا فرد ہوتا،اندلس میںعبدالعزیز بن عبدالرحمن  ثالث جو امیرالمومنین حکم ثانی کا بھائی تھا اس عہدہ پر فائز رہا۔عام لائبریریوں میں موجود ملازمین  کے بڑے افسر کو ُ  ُ  خازن مکتبہ‘‘  کہا جاتا،اس عہدے پر وقت کے مشہور علما میں سے کسی کو متعین کیا جاتا،کچھ افراد مطالعہ کرنے والوں کو فراہمی کتب پر متعین ہوتے انہیں ُ  ُ  متناول‘‘  کہا جاتا،کچھ لوگ دیگر زبانوں سے تراجم کا کام کرتے،وراق اور نقل نویس مختصر وقت میں کتب کی نقول تیار کرتے اور جلد ساز ان کی پختہ اور مضبوط جلد بندی کرتے۔ہر چھوٹے بڑے کتب خانے کے باہرایک فہرست آویزاں ہوتی جس کی مدد سے مطالعہ کنندگان کتب خانے سے استفادہ کرتے،الماری کے ہر خانے کے باہر، اندر کی موجود کتب کے نام لکھے لٹکتے رہتے اس فہرست میں یہ تفصیل بھی درج ہوتی کہ کونسی کتاب مکمل ہے اور کس کتاب کا کتنا حصہ غائب ہے.کتابوں کی اشاعت کو اصل عروج گذشتہ صدی میں ملا،اسی زمانے میں ہی کتاب بینی کا شوق بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھا،کتابیں ہر شخص نہ زیادہ تعداد میں خرید سکتا ہے نہ ہی اپنے گھروں میں محفوظ کر سکتا ہے،اس مقصد کے تحت دنیا بھر میں سرکاری اور نجی سطح پرکتب خانے قائم کیے گئے جہاں علم کے متلاشی اپنے پسندیدہ علوم و فنون سے متعلقہ کتابوں سے مستفید ہوتے ہیں،رواں صدی میں موبائل اور دیگر سوشل میڈیا ایپس کی بھرمار نے معاشرے کو جہاں دیگر بہت سے نقصانات پہنچائے ہیں وہیں پر کتب بینی کا شوق بھی ماند پڑگیا ہے، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی انتظامیہ نے نئی نسل کو کتب بینی کی جانب راغب کرنے کیلئے مری روڈ پر موتی محل بس سٹاپ کیساتھ ایک غیر سرکاری ادارے کی معاونت سے سٹریٹ لائبریری قائم کی ہے جوچوبیس گھنٹے کھلی رہتی ہے،لائبریری کی خاص بات یہ ہے کہ لائبریری کے بالکل ساتھ ہی پی ایچ اے نے خوبصورت سبزہ زار بنا رکھاہے۔جہاں بینچ بھی موجود اور رات کے اوقات میں روشنی کا بھی مناسب انتظام کیا گیا ہے،کتب بینی کے شوقین افراداپنی پسند کی کتاب جاری کروا کروہیں سبزہ زار میں بیٹھ کراپنی پسندیدہ کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔آر ڈی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس جنید تاج بھٹی نے اس حوالے سے بتایا کہ اسی طرز پر ایک اور لائبریری بھی آرڈی اے کی جانب سے راولپنڈی میں قائم کی جارہی ہے،ہماری خواہش اور کوشش ہے کہ کتب بینی کے معدوم ہوتے رجحان کو ختم کر کے کم از کم راولپنڈی کی سطح پر نوجوان نسل اور ہر عمر کے افراد کیلئے صاف ستھرے ماحول میں کتب بینی کی سہولت فراہم کی جائے،انہوں نے جڑواں شہروں کے ادبی حلقوں اور مصنفین سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنی مطبوعہ کتب لائبریری کو عطیہ کریں تاکہ قارئین کو زیادہ سے زیادہ موضوعات پر کتابیں پڑھنے کیلئے دستیاب ہوسکیں۔

ای پیپر دی نیشن