سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر وہ حکومت میں نہیں ہوں گے تو زیادہ خطرناک ہوں گے،اب وہ حکومت میں نہیں ہیں اوروہ وعدے کے مطابق ثابت ہو رہے ہیں، پاکستان میں حکومت بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں،پارلیمنٹ ہو یا جلسہ گاہ پاکستان کی سلامتی کے معاملات، ملکی راز اور خصوصی طور پر عدلیہ اور فوج کے خلاف کبھی بھی کوئی سوشل میڈیا ٹرینڈ چلا کر بدنام نہیں کیا گیا،مگر خان صاحب کی حکومت تبدیل ہوتے ہی سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا کردیا گیا اور اس بات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عمران خان کیوں پاکستانی میڈیا کی پرواہ نہیں کرتے تھے اور پوری میڈیا انڈسٹری کو دیوار کے ساتھ لگا رکھا تھا جس کی سادہ سے وجہ ان کی مضبوط سوشل میڈیا ٹیم کا ہونا تھا جو کہ نا صرف پاکستان میں بلکہ بیرون ملک بھی فعال تھی ۔ جس وقت جلسہ گاہ میں خط لہرایا تو اس وقت اپنی سوشل میڈیا ٹیم کی بھی تعریف کی. آخر کار وہی ہوا جس کا وہ اظہار کررہے تھے عمران خان نے ایک ہی بار امریکہ، پاکستان کے اداروں اور اپوزیشن کے ساتھ محاذ کھڑا کردیا اور اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے ذریعے ایک منظم ٹرینڈ چلا کر ثابت کر دیا کہ وہ ایک طاقت ور ہیں اور خطرناک حد تک جواب دے سکتے ہیں. اس سوشل میڈیا مہم کا اثر نوجوانوں کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں پر بھی پڑاہے، پنجاب اسمبلی میں ہنگامہ آرائی کے مناظر پوری دنیا میں دیکھے گئے اور ابھی دیکھا جارہا ہے. پی ٹی آئی سیاسی سطح پر حقیقت بن کر ابھری تھی اور عمران خان وزیراعظم بنے تھے اور ملکی تمام قوتیں بھی ان کے ساتھ کھڑی تھیں. امریکا بہادر بھی ساتھ کھڑا نظر آیا،اقوام متحدہ میں بھی عمران خان کو پزیرائی ملی اور یورپی یونین میں عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا، خلیجی ریاستوں میں عمران خان ایک محبوب لیڈر کے طور پر نظر آرہے تھے. سوشل میڈیا مہم کا امریکہ پر کوئی اثر ہوتا نظر نہیں آرہا. امریکہ کی اپنی ہی سوچ ہے جس کا اظہار اس نے ایک نئے انداز سے کرنا شروع کردیا ہے. پہلے مرحلے میں وائٹ ہاؤس سے اپوزیشن کی حکومت بننے پر تعریف کی گئی اور پھر احسن تعلقات اور معیشت کی مضبوطی کے لیے باہمی تعاون کے فروغ پر زوردیاگیا. دوسری طرف پینٹاگون سے خصوصی پیغام افواج پاکستان کودیا گیا جس میں دونوں ممالک کے درمیان دفاعی منصوبوں، علاقائی امن وامان پر تبادلہ خیال کیا گیا.اور امید ہے کہ امریکہ کی جانب سے فوری طور پر شہباز حکومت کو امداد کا اعلان بھی کیا جائے اور آئی ایم ایف کی جانب سے بھی آسان شرائط پر قرض دینے کا سلسلہ شروع ہو جائے. اس کے ساتھ ساتھ امریکی کانگریس مسلمان وویمن الہام کو بھی آج پاکستان روانہ کیاگیا ہے جو پاکستان میں اعلیٰ سطح پر ملاقاتیں کریں گی اور کشمیر کا دورہ بھی کریں گی. شاید وہ مسئلہ کشمیر پر کوئی خاص بیان دیں تاکہ امریکہ کو پاکستان میں مسئلہ کشمیر پر بات کرنے کی پزیرائی ہو. اسی طرح امریکہ پاکستان میں عوامی سطح پر بھی بہت سارے اقدامات کررہا ہے. امریکہ نے پاکستانی میڈیا پر بھی سرمایہ کاری کررکھی ۔عمران خان کی پارٹی کی فنڈنگ خصوصی طور پر امریکہ سے آتی ہے، ان کے منصوبوں بشمول شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی فنڈنگ بھی امریکہ سے ہی آتی ہے. ان کی بہن حلیمہ خان بھی اربوں ڈالرز کی جائیداد امریکہ میں لے کر بیٹھی ہے۔ موجودہ صورت حال میں اگر عمران خان واقعی عوام اور حکومت میں دوبارہ آنا چاہتے ہیں تو انہیں مندرجہ ذیل اقدامات کرنے ہوں گے.پہلے مرحلے میں وہ اپنے تمام فیصلوں اور احکامات کا جائزہ لیں جس طرح انہوں نے قاضی عیسی کیس کے حوالے سے جائزہ لیا تو انہیں پتا چلا کہ یہ ان کی غلطی تھی، ایسے مشیران و معاونین جو ابھی بھی ان کے گرد موجود ہیں ان سے ہاتھ باندھ لیں، دوسرے مرحلے میں سیاسی بصیرت رکھنے والے پارٹی کے دیرینہ ساتھیوں کو قریب لائیں اور ان سے مشاورت کریں. تیسرے مرحلے میں اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو خاموش کریں بجائے امریکہ، فوج عدلیہ یا اداروں کو بدنام کرنے کے اچھے اقدامات کی مہم چلائیں اور زمہ دارانہ بیان دیں اور پاکستان کے امیج کو بہتر بنائیں. چوتھے مرحلے میں پاکستان میں سوشل میڈیا کو خاموش کروا کر اپنے اقدامات کی معافی مانگیں اور میڈیا کے ساتھ جو زیادتیاں کیں ان کا ازالہ بھی کریں اور میڈیا انڈسٹری کے ساتھ دوستی کریں. ان کا یہ خیال ہے کہ ان کے پاس ایک سوشل میڈیا ٹیم موجود ہے تو انہیں پاکستان کے میڈیا کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اچھے تعلقات رکھنے کی ضرورت ہے. انہوں نے چند یوٹیوبرز رکھے تھے جہنیں آخری وقت میں بھی وزیراعظم ہاؤس بلایا تھا اس ٹرینڈ کو ختم کریں اور تمام صحافی برادری کے ساتھ تعلقات استوار کریں. آخری مرحلے میں کچھ عرصہ کے لیے لکھی ہوئی تقریر پڑھیں اور ایک اچھا سکرپٹ رائٹر رکھیں جو منجھا ہوا جسے پاکستان کی دینی، جغرافیائی اور قومی حساس و امنگوں کے مطابق اچھے الفاظ میں تقریر لکھ سکتا ہو جو ان کی سیاسی تربیت کرے. سابق وزیراعظم عمران خان کو واپس آنے میں کچھ عرصہ تو لگے گامگر انہیں اچھے کاموں میں دیر نہیں کرنی چاہیئے