حافظ فضل الرحیم اشرفی
’’حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ء کریم ؐ جب مدینہ تشریف لائے تو اس زمانہ میں اہل مدینہ نے دو دن مقرر کر رکھے تھے جن میں وہ خوشیاں مناتے اور کھیل تماشے کرتے تھے آپ نے لوگوں سے پوچھا، یہ دو دن کیسے ہیں؟ صحابہ کرامؓنے عرض کیا ان ایام میں ہم لوگ عہد جاہلیت کے اندر خوشیاں مناتے اور کھیلتے تھے۔ رسول اللہؐ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دنوں کو دو بہترین دنوں میں تبدیل فرما دیا ہے یعنی عیدالاضحی اور عید الفطر۔‘‘رواہ ابوداؤد)
پہلے انبیائؑ کی امتیں بھی کسی نہ کسی شکل میں عید منایا کرتی تھیں، آدم علیہ السلام کی امت اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت آدم ؑ کی توبہ قبول ہوئی‘ حضرت ابراہیم ؑ کی امت اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت ابراہیم ؑ کو نمرود کی آگ سے نجات ملی‘ حضرت یونسؑ کی قوم اس دن عید مناتی تھی جس دن حضرت یونسؑ نے مچھلی کے پیٹ سے نجات پائی‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم اس روز عید مناتی تھی جس دن آسمان سے ’’مائدہ‘‘ نازل ہوا تھا‘ اہل عرب سال میں مختلف تہوار مناتے تھے جن میں شراب نوشی، جواء ، شعر و شاعری‘ رقص و سرور کی محفلیں سجائی جاتی تھیں۔
یہ اسلام کا فیضان ہے کہ اس نے مسلمانوں کے خوشیاں منانے کو ایک پاکیزہ سانچے میں ڈھال دیا۔
عیدالفطر کا دن ہر مسلمان کے لیے خوشی اور مسرت کا دن ہوتا ہے لیکن بازار کی چہل پہل، گہما گہمی، بچوں کا کھیل کود، کھانے پینے کی محفلوں عید کا سارا دن وی سی آر اور ٹی وی دیکھ کر اونچی آواز میں گانے سن کر اور دیگر غیر شرعی تفریحات میں مشغول ہو کر عید کی حقیقی خوشی ہرگز حاصل نہیں کی جا سکتی۔
اللہ تعالیٰ نے عید کی حقیقی خوشی عطا فرمانے سے پہلے رمضان کے روزے فرض کیے ایک ماہ تک دن بھر کھانے پینے سے روکا نفس کی مخصوص خواہشات پورا کرنے سے منع کر دیا اور مقصد یہ بتایا لعلکم تتقون (تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ) جب اللہ تعالیٰ کے حکم کو اس کے حقوق و آداب کے ساتھ پورا کر دیا تو روزہ دار کے دل میں نورِتقویٰ پیدا ہو گیا اسی عظیم نعمت کا شکر ادا کرنے کے لیے مسلمان عظیم اجتماع کے ساتھ دو رکعت نماز عید پڑھ کر شکر خداوندی ادا کرتا ہے غرباء کو صدقہ فطر ادا کر کے اپنے روزہ کی کوتاہیوں کو مٹانے کے ساتھ ساتھ ان محتاج افراد کو بھی عید کی خوشیوں میں شریک کرتاہے۔
اور اسکی نیکیوں کے بدلے میں اللہ تعالی اسے عید کی خوشیاں انعام میں ودیعت فرماتا ہے اس حقیقی خوشی کا لطف وہی خوش نصیب روزہ دار جانتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے رمضان کے مکمل روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس عید کا نام رسول اللہؐ نے ’’عید الفطر‘‘رکھا یعنی روزہ کھولنے کی عید اب جس شخص نے روزہ رکھا ہی نہیں اسے روزہ کھولنے کی خوشی کیا ہو گی اور دوسرے طرف اگر روزہ رکھنے والوں نے عید کو اپنے نفس کی ناجائز خواہشات کو پورا کر کے منایا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ رمضان المبارک کے روزے رکھ کر نفس کی تربیت میں کمی رہ گئی یا عید کی خوشی منانے والے کا دل اس نورِ تقویٰ سے بالکل خالی ہے اور وہ شخص عید کی خوشیاں محض رسمی طور پر منانے میں مشغول ہے۔
لہٰذا جب ہمیں اسلام نے عید الفطر کی خوشیاں عطافرمائیں تو ان خوشیوں کو اسی طرح منانا چاہیے جیسا کہ رسول اللہؐنے خوشی کے یہ لمحات گزارے۔ احادیث کی روشنی میں عید الفطر کے ان اعمال کو ترتیب وار ذکر کیا جاتا ہے تاکہ ہر مسلمان ان کو سنت نبوی ؐ سمجھ کر ادا کرے۔
حضرت تھانوی کہتے ہیں کہ بعض لوگ سویاں پکانا ضروری خیال کرتے ہیں یہ بھی غلط ہے بلکہ جو چاہے پکائے اور چاہے نہ پکائے شرع میں اس (سویاں پکانے کی) تخصیص کی کوئی اصل نہیں ہے۔ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں ’’لوگ کپڑوں کا بہت اہتمام کرتے ہیں حتی کہ بعض قرض لے کر نئے کپڑے بنواتے ہیں، بعض مستعار (ادھار مانگ کر) پہنتے ہیں۔ اس کی بھی کوئی اصل نہیں ہے بلکہ سنت یہ ہے کہ ہر شخص کے پاس موجود کپڑے ان میں سے جو اچھے ہیں وہ پہنے۔ (زوال السنہ عن اعمال السنہ)۔
عید گاہ جانے سے قبل صدقہ فطر دے دینے کی ہدایت ہے۔ صدقہ فطر ہر مسلمان عاقل، مردو عورت پر واجب ہے جب کہ وہ زکوٰۃ کے نصاب کا مالک ہو چاہے اس مال پر سال نہ گزرا ہو۔ اپنی طرف سے اپنے نابالغ بچوں کی طرف جو زیر کفالت ہوں نصف صاع (یعنی پونے دو کلو) گندم یا اس کی قیمت ادا کرنا۔ (بہشتی گوہر)عید گاہ جلدی جانا چاہیئے، رسول اللہ ؐ کی عادت مبارکہ تھی کہ نماز عید گاہ (میدان) میں ادا فرماتے تھے۔ (صحیح مسلم و صحیح بخاری)
حضرت ڈاکٹر عبدالحیؒ لکھتے ہیں یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عید کے لیے میدان میں نکلنا مسجد میں نماز ادا کرنے سے افضل ہے اس لیے کہ رسول اللہؐ باوجود اس فضل و شرف کے جو آپ کی مسجد شریف کو حاصل ہے نماز کے لیے عیدگاہ کھلے میدان میں تشریف لے جاتے تھے لیکن اگر کوئی عذر لاحق ہو تو جائز ہے۔جیسا کہ ایک مرتبہ عید کے روز بارش ہو رہی تھی تو رسول اللہؐ نے عید کی نماز مسجد میں پڑھائی۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)اللہ رب العزت ہم سب کو عید الفطر رسول اکرم ؐ کی سنت کے مطابق گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے۔(آمین)