دونوں کو ہی اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ نہ ن لیگ کو نہ زرداری کو مگر ان دونوں کے درمیان سے عمران خاں کا راستہ نکل آیا اور وہ وزیر اعظم بن گئے۔ تاہم یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھاکہ حکومت بھی چلا پائیں گے کہ نہیں کیونکہ پنجاب کو عثمان بزدار کے سپرد کرکے انہوں نے غلطی نہیں بلکہ فاش غلطی کی ورنہ اگر جنوبی پنجاب سے ہی کسی کو وزیراعلیٰ بنانا تھا تو ایک سے ایک اہل لوگ ان کی جماعت میں موجود تھے۔ اسی دوران دنیا بھر اور پاکستان میں کرونا کی مہلک وباء پھیل گئی اور جس حکمت عملی سے عمران حکومت نے اس وباء سے نمٹا‘ اس کی کامیابی کا بھی اندازہ بعد میں ہوا۔ برادرم کالم نگار اظہار الحق اب بھی اس بات کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ پنجاب میں جمیل گجر حکومت کرتا رہا اور بیوروکریسی ناراض ہوگئی مگر ہر شخص کے علاج کے لئے’’ہیلتھ کارڈ‘‘ بنا کر جس طرح دس لاکھ روپے ان کے اکائونٹ میں ڈال دیئے گئے اور ہم نے بہت سے لوگوں کو محض اپنے شناختی کارڈ پر لاکھوں کا علاج اوردل کے آپریشن مفت کراتے دیکھا تو کئی جمیل گجر نظر سے اوجھل ہوگئے۔ ہیلتھ کارڈجب موجودہ نگران حکومت نے ختم کردیا تو اسکی اہمیت اور افادیت کا اندازہ بھی بعد میں ہوا۔ عمران حکومت میں مہنگائی نے خوب اودھم مچایا، پٹرول 170روپے فی لیٹر تک جا پہنچا اور بجلی وگیس کے بلوں نے بھی کس بل نکال دیئے مگر جب یہ خبریں ملیں کہ فیصل آباد کی ٹیکسٹائل انڈسٹری ہفتے کے ساتوں دن اور دن کے چوبیس گھنٹے چل رہی ہے مزدور خوش باش ہیں‘ لوگوں کے گھر وں کا چولہا چل رہا ہے اور برآمدات کی مد میں کروڑوں ڈالر قومی خزانے میں آرہے ہیں تو حکومت کی اس کامیابی کا بھی اندازہ بعد میں ہوا۔ گوجرانوالہ سٹیڈیم میں PDM کے ایک جلسے میںملک کی عسکری قیادت کے نام لے لے کر مریم نواز، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان اور انس نورانی وغیرہ نے خوب خوب انہیں گالیاں دیں اور ڈرامے کے آخری منظرنامے کے مطابق جس طرح نوازشریف نے لندن سے خطاب کرتے ہوئے عسکری قیادت کو رسواء کیا، اس سے ہمارے دل دکھی ہوئے مگر اگلے روز ہی عمران خاں نے جب اس کا کرارا جواب دیا تو ان کی ’’بروقت کاروائی‘‘ کی اہلیت کا اندازہ بھی بعد میں ہوا۔ اب جب انڈیا سستے داموں روس سے تیل حاصل کررہا ہے تو عمران خاں کی دور اندیش سوچ جس کی بنا پر وہ انڈیا سے پہلے ہی روس سے انہی داموں پر تیل خریدنے کے معاہدے کے قریب تھا‘ اس کا اندازہ بھی بعد میں ہوا۔ ہم لوگ جیسے بھی تھے‘ عمران خاں کے دور میں خوش تھے‘ ضرورتیں پوری ہورہی تھیں‘ کم مائیگی کا احساس نہیں تھا۔ امن وامان تھا اوراس بات کا ہمیں بعد میں اندازہ ہواکہ یہ سب اس کے’’جرائم‘‘ تھے جس کی پاداش میں اس کی حکومت کا بھونڈے طریقے سے خاتمہ کیا گیا۔ اس سے پہلے بھی پاکستان میں کئی ایک حکومتوں کا خاتمہ کیا گیا۔ کبھی مارشل لاء لگا کر اور کبھی عدالتی فیصلوں سے تو کبھی کسی آئینی شق کو ڈھال بناکر مگر اقتدار سے عمران خاں کی رخصتی سب سے الگ اور نرالی تھی۔ بس ایک ڈائری اس کی کل متاع تھی، جسے دائیں ہاتھ میں پکڑ کر اس نے وزیراعظم ہائوس چھوڑ دیا۔ باہر نکل کر خان ’’بے کار‘‘ قسم کی چیز بن کر رہ جائے گا مگر یہ اندازے بھی غلط نکلے۔ اس کی راہداریوں سے باہر آکر وہ دن بدن عوام میں اس قدر مقبول ہوگیا کہ ہماری عقلیں دنگ رہیں سو رہیں مگر خود نکالنے والے کے تمام اندازے غلط نکلے۔ ان کا خیال تھا کہ اب عمران خاں کی جگہ شہباز شریف دیگر 12جماعتوں کو ساتھ لے کر ملک چلائیں گے تو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ ہوگی لیکن پاکستان کی سیاسی اوراقتصادی تاریخ میں پی ڈی ایم کی حکومت کسی بھی حکومت کا ایسا ایک سال ہے جو اس سے قبل کبھی نہ دیکھا نہ سنا۔ اس طرح یہاں بھی سب اندازے غلط نکلے۔ پی ڈی ایم حکومت کا یہ سال ایک المیہ فلم ہے جس میں لوگ آٹا لینے گھر سے نکلے اور واپسی پر ان کی لاشیں گھر والوں نے وصول کیں۔ سفید پوش لوگ کونوں کھدروں میں منہ دے کر کچھ اس طرح رونے لگے کہ کسی کو کان وکان خبر بھی نہ ہو۔ پنجاب کی نگران حکومت نے انتخابات کی نگرانی کے علاوہ باقی سب کام کئے۔ تعدی و تشدد کے ننگے باب رقم کئے۔ مگر اندازے غلط نکلے اور عمران خاں مزید مقبول ہوتا گیا۔ اس ایک سال کے دوران الجھنوںکا شکار ہوکر نکالنے والوں نے اور ن لیگ نے مل کر وزیرآباد میں ایک عدد باگڑی کی مدد سے عمران خاں کو قتل کرنے کا پروگرام بنالیا مگر اندازہ یوں غلط نکلا کہ جان لینا تو اس بے نیاز کاکام تھا کسی نوید یا باگڑی کا نہیں۔ پھر مقبولیت کی معراج نے خان کے قدم چومے تو پی ڈی ایم والوں نے انتخابات سے فرار کی راہ کو ہی مناسب راستہ جانا، عدلیہ فتح کرنے اور انتخابات کا ریلا روکنے کی کوشش کی۔ ججوں کو موقع فراہم کیا کہ وہ تاریخ کی کتاب میں لگی دیمک کا رزق بن جائیں اور فیصلے ان کی حق میں آسکیں۔ مگر چیف جسٹس آف پاکستان اور دیگر ججوں نے جس طرح دوٹوک انداز میں 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ اس سے ایک بار پھر تمام ٹوٹ بٹوٹوں اور ’’کولڈوڈوں‘‘ کے اندازے غلط نکلے اور قوم خوشی سے نہال ہوگئی ۔ اب اگر پی ڈی ایم کاخیال ہے کہ الیکشن کمشن اور پارلیمنٹ کو ڈھال بناکر 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات نہیں ہونے دیں گے یا کوئی نئے نئے شگوفے چھوڑ کر اپنے اقتدار کو طول دے لیں گے تو ان کا یہ اندازہ بھی غلط نکلے گا۔ آئین کی کتاب پاکستان کی بنیاد ہے جس پر عمل نہ کرکے ہم 1971ء میں اس کے سنگین نتائج بھگت چکے ہیں۔ آئین کی شیرازہ بندی میں قوم کا ایک ایک فرد شریک ہوتا ہے۔ اس کی فرمانبرداری میں ہی اسکا جوہر پوشیدہ ہے۔
افسوس ناک:۔گزشتہ دنوںڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن حافظ آباد کے سابق صدر، معروف صحافی، ہمارے دوست اور لاء کالج کے کلاس فیلوجناب صدیق بھٹی یہ دنیا چھوڑ گئے۔ اللہ تعالی انہیں جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین
٭…٭…٭