ہمارا پاکستان’’یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر‘‘

 محمد جواد صدیقی 
siddiq.jawad@gmail.com
قیام پاکستان سے آج تک پاکستان کی تاریخ مختلف طرز حکومت سے بھری پڑی ہے۔ جس میں جمہوریت اور آمریت قابل ذکر ہیں اور بالخصوص "ملک ایک نازک دور سے گزر رہا ہے" یہ اصطلاح ہر دور میں مشترک رہی جو کم و بیش اب اپنی اہمیت کھو چکی ہے۔ 
مذہبی، سیاسی، نظریاتی اور معاشرتی تقسیم بحیثیت قوم ہمارے آگے بڑھنے میں ایک بڑی رکاوٹ رہی۔ قصہ مختصر آج سات دھائیاں گزرنے کے باوجود ہم منزل سے بہت دور ہیں۔ 
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
 یہ وہ سحر تو نہیں  جس کا انتظار تھا
چند روز قبل اسی حوالے سے ایک فورم پر جانے کا اتفاق ہوا عنوان موجودہ مسائل سے نکلنے کا حل تلاش کرنا تھا۔ لیکن افسوس الزام تراشی، بے ہودگی، ایک دوسرے کی تضحیک اور نفرت کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ اور سب سے دلچسپ اور افسوسناک پہلو کے مجلس کے آخر میں ہر شخص ذاتی تعلق داری بنانے کے لیے انتہائی محبت اور احترام سے بغلگیر تھا ۔ معلوم ہوا کے پاکستان کی بات آئے تو ہم مذہب، نظریہ سیاسی وابستگی کی نفرت بھری چادر اوڑھ لیں اور جب ہماری ذات اور نفع نقصان کی بات ہو تو سب کچھ قابل قبول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انفرادی طور پر لوگوں نے بہت ترقی کی لیکن بحیثیت ریاست ہر گزرتے دن کے ساتھ ہم مزید پستی کا شکار ہیں۔
بلاشبہ آج ریاست کی اس ابتلا کی بے شمار وجوہات ہیں لیکن سیاسی عدم برداشت اور سیاسی عدم استحکام اس صورتحال کی بڑی وجہ ہیں۔ 
آج میثاق ریاست کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تین دھائیوں سے بحیثیت سیاست کے طالب علم اپنی رائے کا اظہار مختلف فورمز پر کرتا رہا ہوں اور بحیثیت مجموعی فوج کی سیاسی کردار پر تنقید بھی کی مگر آج جو صورتحال ملک کو درپیش ہے اور جس طرح سے گزشتہ ایک سال بالخصوص فوج کی بحیثیت ادارہ تذلیل کی گئی وہ نہ صرف افسوس ناک ہے بلکہ ملکی بقا اور سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ملک کے نام نہاد جمہوریت پسند اس بات پر آئینی دلائل دیں گے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کی کوئی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس نے اقتدار کے حصول کے لیے فوج کی مدد نہ مانگی ہو اور پھر اقتدار سے الگ ہونے کا بعد آئین کا ڈھول نہ پیٹا ہو۔ اور ماضی قریب کی آخری مثال انتہائی دلچسپ اور افسوسناک ہے۔ رہا مسئلہ آئین کا تو اپنی ضرورت کے لیے ہر سیاسی جماعت نے آئین میں ترامیم کیں تو ریاست کے لیے کیوں نہیں۔ اگر ???? میں جنرل جہانگیر کرامت کی نیشنل سیکیورٹی کونسل کی تجویز کو مان لیا جاتا تو یقینا بحیثیت ریاست ہم اس نہج کو نہ پہنچتے۔ 
آج حقیقت یہ ہے کہ افواج پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا ادارہ نہیں ہے جو ملک کو یکجا رکھ سکے اور کسی بڑے بحران سے نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ تمام مقتدر قوتیں مل کر بیٹھیں اور ملک کو ان مسائل سے نکالنے کی کوشش کریں۔ فوج اس ملک کی سلامتی اور استحکام کی سب سے مضبوط ضامن ہے اس کو کمزور کرنا ملک کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنا ہے۔ 
غلطیاں تمام مقتدر حلقوں سے ہوئی ہیں اگر زرداری اور نواز شریف، عمران خان اور پرویز الہی اپنے اقتدار کے لیے اکھٹے ہوسکتے ہیں تو افواج پاکستان تو ہمارا فخر ہے کیا ہم ان کے چند افسران سے کی گئی غلطیاں پاکستان کے لیے معاف نہیں کر سکتے۔
انتہائی خوش آئند بات ہے کہ افوج پاکستان نے بحیثیت ادارہ آئندہ غیر آئینی کردار کے تدارک کا واضح اشارہ دیا ہے۔ اور رہ گئی بات اپنی غلطیوں کے اعلانیہ اعتراف کی تو وہ آج تک نہ کسی سیاستدان، جج اور دوسرے مقتدر ادارے یا شخص نے نہ کیا۔
افسوسناک سچ یہ ہے کہ ہم اتنی نفرت اپنے دشمنوں سے نہیں کرتے جتنا اپنے پاکستانیوں سے کرتے ہیں۔ 
خدارا پاکستان لاکھوں مسلمانوں نے قربانیاں دے کر کلمہ کے نام پر حاصل کیا تھا اسے اپنی انا اور بغض کی بھینٹ نہ چڑھائیں ۔ روز محشر ہم سے یہ سوال بھی ہوگا
نہ نیا نہ پرانا ۔ ہمارا پاکستان

ای پیپر دی نیشن