کراچی کے چڑیا گھر میں موجود بیمار ہتھنی نور جہاں چل بسی، ہتھنی نور جہاں کئی دنوں سے بیمار تھی۔ایڈمنسٹریٹر کراچی ڈاکٹر سیف الرحمان نے ہتھنی کی موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی روز سے ہتھنی نور جہاں بخار میں مبتلا تھی، ہتھنی کو بچانے کے لئے تمام کوششیں کی گئیں۔ڈاکٹر سیف الرحمان نے بتایا کہ ہتھنی نورجہاں کا علاج عالمی سطح کے ماہرین کی زیر نگرانی کیا گیا، گزشتہ دنوں ہتھنی کےعلاج کے لئے فورپاز کی ٹیم بھی کراچی آئی تھی۔انہوں نے مزید بتایا کہ کے ایم سی انتظامیہ نے ہرممکن کوشش کی کہ ہتھنی نور جہاں کو بچایا جاسکے۔ایڈمنسٹریٹر کراچی نے مزید کہا کہ زندگی اور موت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لیکن ہتھنی نور جہاں کے انتقال پر دکھ ہوا۔چڑیا گھر کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ نورجہاں کا کچھ ماہ پہلے آپریشن کیا گیا تھا، جس کے بعد پیچیدگیوں کے باعث ہتھنی کو چلنے پھرنے میں دشواری تھی۔انتظامیہ کے مطابق کچھ دن قبل ہتھنی نورجہاں تالاب میں جاکر بیٹھ گئی اور پھردوبارہ نا اٹھ سکی۔بیمار ہتھنی نور جہاں بچوں کو اداس کرگئی، نور جہاں سمیت 4 مادہ ہاتھیوں کو 2009 میں پاکستان لایا گیا، افریقی نسل کی ہتھنیوں کو تنزانیہ سے لایا گیا تھا۔پاکستان میں اب صرف 3 مادہ ہاتھی موجود ہیں، 2 ہتھنیوں کو کراچی چڑیا گھر اور 2 کو سفاری پارک میں رکھا گیا تھا۔سفاری پارک میں موجود ہتھنیوں کے نام سونو اور ملکہ ہیں جبکہ کراچی چڑیا گھر میں نورجہاں اور مدھو بالا کو رکھا گیا تھا۔2 سال قبل چڑیا گھر کی ہتھنی کا طبی معائنہ کیا گیا تھا، ہتھنیوں کے ناخنوں میں فنگس بھی پایا گیا تھا، مناسب ماحول نہ ملنے کی وجہ سے دونوں ہتھنی ذہنی دباؤ کا شکار تھیں۔ذرائع کے مطابق مدھو بالا اور نورجہاں کی دیکھ بھال میں غفلت برتی گئی، نور جہاں کا اس سے قبل آپریشن بھی ہوا، نورجہاں کو چلنے پھرنے میں دشواری کا سامنا تھا، ادویات کے باعث نورجہاں کی طبیعت مزید بگڑ گئی تھی۔دوسری جانب گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے ہتھنی نور جہاں کے انتقال پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔گورنرسندھ نے کہا کہ انتظامیہ نے ہتھنی کی زندگی بچانے کی ہرممکن کوشش کی، غیرملکی ڈاکٹرز کے مشورے کے مطابق علاج جاری تھا، عید کے دن اس افسوسناک خبر سے بہت دکھ ہوا۔