خوشیوں بھرا تہواربیساکھی

دھرتی سے محبت کرنے والے امر ہوجایا کرتے ہیں ۔ دھرتی پر مان کرنے والوں کو لوگ اپنے گیتوں ،بولیوں اور ٹپوں میں یاد کرتے ہیں ۔ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ نہ صرف اپنے پنجابن ہونے پر فخر کرتی ہیں ۔ مان سے پنجابی بولتی ہیں بلکہ وہ لوگوں سے بھی کہتی ہے کہ پنجابی میں بات کیا کرو۔اب ساراپنجاب وزیر اعلی کی دھرتی سے محبت کے گیت گا رہا ہیں اور لوگ یہ اُمید کررہے ہیں کہ جلد ہی وزیر اعلی پنجاب سکول پڑھنے والے بچو ںکے بستے میں پنجابی قاعدہ رکھوا دیں گی۔ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف نے چند دن پہلے کرتارپور نارووال میںگندم کٹائی کا آغاز کیا،اس موقع پر انہوں نے پنجابی زبان میں بڑی خوبصورت اور بامقصد گفتگو کی۔اسکے ساتھ ساتھ وزیر اعلی نے ہر سال پنجاب میں بیساکھی میلہ منانے کا بھی اعلان کیا ہے ۔تقسیم ہندوستان سے پہلے بیساکھی یا وساکھی ایک مکمل پنجابی تہوار تھا۔ہر سال گندم کٹائی شروع ہونے کی خوشی میں پنجاب بھر میں میلے لگتے،ڈھول بجتے،کھانے پکتے اور لوگ نئی فصل کے آنے پر رب کا شکر ادا کرتے ۔گندم کی کٹائی کی فصل کو لوگوں کی زندگیوں میںبہت اہمیت حاصل رہی ہے ۔گھر میں نئی فصل کے دانے خوشحالی کا پیغام لے کے آتے۔ چہرے کھل اُٹھتے اور ہر طرف عید کا سا سماں ہوتا۔ لوگ بچوں کی شادیاں،قرض کی ادائیگیاں اور دوسرے بہت سے معاملات گندم کی فصل کے کٹنے کے بعد کیا کرتے تھے۔تقسیم ہندوستاں کو تقسیم پنجاب کہا بھی جاتا ہے اس لیے کہ سب سے زیادہ ہجرتیں پنجاب کے لوگوں نے کیں ۔سب سے زیادہ جان و مال کا نقصان پنجابیوں کا مقدر بنا۔سب سے زیادہ عزتیں پنجابیوں کی لوٹی گئیں ۔یہ اور بات ہے کہ قیام پاکستان کے بعد پنجابیوں نے نہ خود کو مہاجر کہلانا پسند کیا ،نہ محرومیوں کا رونا رونے کیلئے پنجابی سیاسی جماعت بنائی اور نہ ہی ہندوستاں بھر سے پنجاب آکر آباد ہونے والے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔لیکن یہ ایک تلخ حقیت ہے کہ مہمان نواز پنجابیوں کی صلح جو طبیعت اور پاکستان سے محبت کا کچھ لوگوں نے ناجائز فائدہ اُٹھایا۔اور پانچ ہزار سال پرانی زبان کودو تین سو سال پہلے درباری ضرورت کیلئے وجود میںآنے وال اردو ز بان کے سامنے سرنگوں کرنے کیلئے کہانیاں تراشیں ۔اس دانشورانہ کرپشن کے نتیجے میںپنجابی نوجوانوں کو جہاں اپنے ہزاروں سالہ ثقافتی ورثے سے دور کرنے کی کوشش کی گئی وہیں لوگ اپنی زبان و ادب اورروایت سے محروم ہوگئے۔یعنی بارڈر کی ایک لائن کھنچ جانے کے بسنت کو ہندووں اور بیساکھی کو سکھوں کا تہوار قرار دیا گیا۔ لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے والے پنجابیوں کو دھرتی سے جڑے ہزاروں سال سے منعقد ہوتے چلے آرہے تہواروں سے بھی دور ی اختیار کرنے کا درس دیا گیا۔برصغیر میں مسلمانوں کی آمد قریب ہزار بارہ سو سال پہلے ہوئی جبکہ سکھ مذہب کی شروعات کو صر ف چار پانچ صدیاں ہی ہوئی ہیں۔اور پنجاب جیسے زرخیز خطہ میںلوگ اپنا پیٹ پالنے کیلئے گندم کئی صدیوں سے کاشت رہے ہیں۔
 تاریخ کی کتب کے ورق کھولیں تو پتہ چلتاہے کہ 1699 ء سے پہلے بھی وسط اپریل اور دیسی مہینے بیساکھ کے شروع میںجب بہار اپنے عروج پر ہوتی، پھول خوشبو بکھیر رہے ہوتے ، آموں کے درختوں پہ بُور آرہا ہوتا اور کھیتوں کھلیانوں میں ہر کہیں رس چوسنے والی کلیوں کی بہتات ہوتی ۔انہی دنوںدھوپ کی تپش سے گندم کی فصل پک جاتی اور کٹائی شروع ہوجاتی تھی ۔ گاوں کے بوڑھوںکے مطابق تقسیم ہندوستاں سے پہلے بیساکھی مکمل طور پر پنجابی تہوار ہوا کرتا تھا ۔ جسے ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والے گندم کی فصل پکنے اور گھر میں رزق آنے کی خوشی میں مل کے منایا کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انسانیت ابھی مذہبی تعصب کی بھینٹ نہیں چڑھی تھی۔
 1947 ء سے پہلے پنجاب کے تمام کسان مذہبی تقسیم سے بالاتر ہوکر گندم کی کٹائی پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے اور میلے منعقد کرتے تھے۔ ان تمام میلوں ٹھیلوں میں رونقیں اور محبتیں عروج پر ہوتی تھیں۔ قرب و جوار سے ہر مذہب کے ماننے والے دکاندار میلوں میں چار پیسے کمانے پہنچ جایا کرتے تھے اور اپنی دکانیں سجایا کرتے تھے۔ہم نے جب ہوش سنبھالا ان دنوں ہر طرف امن تھا،لوگوں کے پاس مال و دولت کی فروانی تو نہ تھی لیکن احساس تھا۔رواداری اور برداشت تھی۔گاوں کے اردگرد بہت سے مزاروں ،درباروں اورخانقاوں پر میلے لگتے دیکھے۔جن میں پنجاب بھر سے پہلوان، لوک گلوکار، مٹھائیاں بنانے والے،موشیویوں کے بیوپاری اور ادب و ثقافت سے محبت کرنیوالے میلوں میں شریک ہوتے۔ ہر رنگ نسل اور مذہب کے لوگ بنا کسی تفریق شرکت کرتے اور اپنا دامن خوشیوں سے بھر کے گھرو ںکو لوٹتے۔ بچپن کے ان دنوں کو سوچنے سے ہی ذہن کھل اُٹھتا ہے روح مہطر محسوس ہونے لگتی ہے اور زبا ن پر ڈھولے،ماہیے اور ٹپے آجاتے ہیں۔واقعی وہ دن بہت محبت والے تھے۔چیت کا مہینہ شروع ہوتا، سردی ختم ہوجاتی ، ہر سمت پھول کھلے نظر آتے،صبح منہ اندھیرے ہی کسان فصل کی راکھی کو نکل جاتے،جیسے جیسے گندم کی کٹائی کا وقت نزدیک آتا ،کھیتو ںمیں ایک عجیب بہار نظر آنے لگتی۔اور جب گند م کی کٹائی شروع ہوجاتی تو ڈھول کی تھاپ پہ گاوں کے لوگ اکٹھے ہوجاتے، مٹیاریں بولیاں، ٹپے اور ماہیے گاتیں۔ مر داور جوان لڑکے بھنگڑا ڈالتے اور پورے کا پورا گاوںکھیتوں کی طرف چل پڑتا۔ٹولیوں کی شکل میں مل جُل کرباری باری ایک دوسرے کی فصل کاٹی جاتی۔آہ!لیکن یہ ان دنوں کی بات ہے ۔جب دھرتی سے جڑے تہوار سانجھے ہوتے تھے۔ پھر پتہ نہیں کیسے مذہبی عصبیت کی آگ دہکا کر اس میں سب تہوار، رسم و رواج جلادیے گئے۔ نفرت کی آگ سے اُٹھنے والا دُھواں گاوں گاوں،شہر شہر اور قریہ قریہ پھیلنے لگا ۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ اقتدار پر ناجائز طریقے سے قبضہ کرنے والوں نے اپنی کرسی کی مضبوطی کیلئے نفرت کے بیج خود منصوبہ بندی سے بوئے تھے۔جو بیت گیا وہ وقت اب واپس نہیں آسکتا۔لیکن آنیوالے کل کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔
آجکل ہمارے وزیر خارجہ اسحاق ڈار بھارت سے تجارت کے حوالے سے بات چیت کررہے ہیں۔کیا ہی اچھا ہو کہ واگہ بارڈر پرایک ایسا کوریڈور بنادیا جائے جہاں روز میلہ لگا کرے۔ دونوں ملکوں کے لوگ روزکچھ وقت ساتھ گزار سکیں۔خواتین چوڑیاں، ساڑھیاں اور برتن خریدیں۔ لوک گلوکار اپنے گیتوں سے لوگوں کو محبت کی کہانیاں سنائیں، شام کو شاعر، ادیب اور دانشور ایک ساتھ بیٹھ کے چائے پیتے ہوئے دونوں ملکوں کے عوام کو درپیش مسائل پر گفتگو کریں۔یہ بھی تجارت ہے ۔اس سے بھی حکومتوں کو روزانہ لاکھوں کی آمدن ہوسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن