دوسری جنگ عظیم کے دوران بھارت میں آفیسرز کے لئے تین اہم تربیتی ادارے تھے اور وہ تھے انڈین ملٹری اکیڈیمی ڈیرہ دون۔ آفیسرز ٹریننگ سکول مہو (OTS) اور آفیسر ز ٹریننگ سکول بلگام۔ یہ ٹریننگ سکولز ملٹری تربیتی ادارے تھے جو دوسری جنگ عظیم میں آفیسرز کی کمی پوری کرنے کے لئے قائم کئے گئے تھے۔ جنگ کی مجبوری کی وجہ سے اس وقت نہ تو انتخاب کا معیار اتنا سخت تھا اور نہ تربیت کا دورانیہ۔
ان دنوں جن نو جوانوں کو منتخب کیا جاتا تھا انہیں چند ماہ کی بنیادی تربیت دیکر انفنٹری افسران کو سیدھا اپنی یونٹوں میں بھیج دیا جاتا جن میں سے اکثریت محاذ ِجنگ پر ہوتی لیکن ٹیکنیکل آرمز میں جانیوالے افسران کو مزید بنیادی تربیت کے لئے ان کے سپیشلائزڈ تربیتی اداروں میں روانہ کیا جاتا جہاں وہ اپنے پیشے کی بنیادی تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنی یونٹوں کے لئے محاذِ جنگ پر روانہ ہو جاتے۔ انڈین ملٹری اکیڈیمی ڈیرہ دون بہر حال ایک مستقل اور شاندار فوجی تربیتی ادارہ تھا جہاں دو سال کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تربیت کے بعد نو جون کیڈٹس کو کمیشن عطا کیا جا تا لیکن جنگ کی مجبوری سے اسے بھی وقتی طور پر شارٹ کورسز میں تبدیل کر دیا گیا۔
یہ ادارہ سینڈھرسٹ ملٹری اکیڈیمی انگلینڈ کی طرز پر 1932 میں قائم کیا گیا تھا۔
1945 میں جب دوسری جنگ عظیم ختم ہوئی تو آفیسرز کی ضرورت کم ہو گئی۔ آفیسر ز ٹریننگ سکولز مہو اور بلگام بند کر دیئے گئے۔ ڈیرہ دون ملٹری اکیڈیمی میںشارٹ کورسز ختم کر کے لانگ تربیتی کورسز دوبارہ شروع کئے گئے۔ جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان کی آزادی کا عمل تیز ہو گیا جو بالآخر 1947 میں اسکی تقسیم پر منتج ہوا۔ اس تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی انڈین آرمی کی تقسیم بھی شروع ہوگئی جس سے انڈین ملٹری اکیڈیمی بھی نہ بچ سکی۔
تقسیم ہند کے وقت انڈین ملٹری اکیڈیمی میں تیسرا آئی۔ ایم۔اے لانگ کورس (3rd IMA long Course) چل رہا تھا۔ شروع میں تو یہ فیصلہ کیا گیا کہ پاکستانی علاقے سے تعلق رکھنے والے یا پاکستان آرمی میں جانے کے خواہشمند کیڈٹس کو اپنی تربیت انڈین ملٹری اکیڈیمی میں ہی مکمل کرنے دی جائے یا انہیں اس وقت تک نہ چھیڑا جائے جب تک کہ پاکستان اپنی ملٹری اکیڈیمی قائم نہیں کر لیتا جسکا کوئی فوری چانس نہ تھا۔
ایک سوچ یہ بھی تھی کہ دونوں ممالک دوست بن کر رہیں گے اور ملٹری اکیڈیمی ایک ہی رہے گی لیکن ان میں سے کوئی سوچ بھی قابل عمل ثابت نہ ہوئی۔ بد قسمتی سے جب تقسیم کا عمل شروع ہوا تو یہ فورا ًمذہبی جنگ کی صورت اختیار کر گیا۔ ہندو اور سکھ مسلمانوں کے خون کے پیاسے بن گئے اور کچھ ایسے ہی حالات اس طرف بھی تھے۔ اس باہمی نفرت اور عداوت کی وجہ سے پاکستانی کیڈٹس کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں۔ فیصلہ کیا گیا کہ انہیں خفیہ طور پر پاکستان بھیج دیا جائے لیکن یہ فیصلہ تمام افسران اور کیڈٹس سے خفیہ رکھا گیا۔
17 اکتوبر 1947 کی شام 5 بجے جب اکیڈیمی میں ہاکی میچ کھیلا جا رہا تھا تمام کیڈٹس وہاں جمع تھے تو کمانڈنٹ برگیڈئیر اے۔ بی بالٹراپ ( AB Baltrop) وہاںآئے او ر پاکستان جانے والے کیڈٹس کو علیحدہ بلا کر بتایا کہ وہ پاکستان جانے کے لئے فوری طور پر تیار ہو جائیں۔ تمام بھاری سامان اکیڈیمی میں ہی چھوڑنے کا کہا گیا۔ صرف ذاتی کپڑے اور کا غذات وغیرہ لے جانے کی اجازت ملی۔
میجر ٹکا خان جو 1971 کی جنگ کے بعد پاکستان آرمی کا چیف آف سٹاف بنا اس وقت وہاں پر انسٹرکٹر تھا۔ اس نے فوری طور پر ان کیڈٹس کو اکٹھا کر کے پاکستان کے سفر کی تفصیل بتائی اور ان سب کی تیاری میں مدد کی۔ بھارتی افسران کے مطابق کل 67 کیڈٹس نے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا جن میں سے 66 مسلمان تھے اور ایک کرسچین لیکن IMA سے آنیوالے کیڈٹس کے مطابق وہاں سے 67 کیڈٹس آئے تھے جن میں سے 64 مسلمان تھے اور 3 کر سچین۔
یہ تھے جنٹل مین کیڈٹ Edward Cater، جنٹل مین کیڈٹ .L.M Tobin اور جنٹل مین کیڈٹ Roman Miranda۔ پہلے دو کیڈٹس غیر ملکی تھے جو شوقیہ طور پر پاکستان آئے۔ انہوں نے یہاں اپنی تربیت مکمل کی۔ کمیشن حاصل کیا۔ بعد میں Edward Cater انگلینڈ چلا گیا اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔ Tobinآسٹریلیا جا کر سیٹل ہو گیا اور Miranda پاکستان آرمی سے میجر ریٹائر ہوا۔ اسکی فیملی راولپنڈی میں رہائش پذیر ہے۔ پاکستان ملٹری اکیڈیمی کے ریکارڈ میں بھارت سے کل 66 کیڈٹ آئے۔ کر سچین کیڈنس کا ذکر موجود نہیں ہے۔
ڈیرہ دون ملٹری اکیڈیمی کے گیٹ کے باہر نصف کلومیٹر کے فاصلے پر پاکستان سے گئے ہوئے ہندو اور سکھ مہاجرین کے کیمپ تھے جس وجہ سے مذہبی منافرت شدید تھی۔خطرہ تھا کہ ان کیڈٹس پر حملہ ہو جائیگا۔ اس وجہ سے کیڈٹس کو تیار تو رکھا گیا لیکن انہیں روانگی کا وقت نہ بتایا گیا۔ ان لوگوں کے لئے فوجی ٹرانسپورٹ کا بندو بست کیا گیا اور رات ایک بجے انہیں خفیہ طریقے سے اکیڈیمی سے روانہ کیا گیا۔ تاثر دیا گیا کہ کیڈٹس رات کی تربیتی مشقوں پر باہر جا رہے ہیں جو تربیتی اداروں میں روزمرہ کے معمول ہیں۔ اس لئے باہر کسی کو شک نہ گزرا۔ 2 گھنٹوں کی مسافت کے بعد یہ لوگ سہار نپور پہنچے۔ وہاں رائل انڈین ائیر فورس نمبر 31 سکوارڈن کے دس ڈکوٹا طیارے تیار تھے جنہوں نے ان کیڈٹس کو لاہور پہنچا دیا۔ کیڈٹس کے مطابق یہ طیارے پاکستان نے بھیجے تھے۔ اس وقت تک پاکستان ملٹری اکیڈیمی شروع نہیں ہوئی تھی نہ ہی اسکے لئے جگہ کا انتخاب ہوا تھا لہٰذا ان تمام کیڈٹس کو وقتی طور پر مختلف یونٹوں کے ساتھ اٹیچ کر دیا گیا۔ (3rd IMA کے کیڈٹ طارق میر کے مطابق 15 ستمبر 1947 کو اچانک نصف شب ریوالی کا بگل بجا۔ تمام کیڈٹس باہر دوڑے۔ وہاں اچانک پاکستانی کیڈٹس کو فوری روانگی کے احکامات ملے۔)
انڈین ملٹری اکیڈیمی سے پاکستان آنیوالے کیڈٹس میں 2nd IMA اور 3rd IMA کورس کے نوجوان تھے۔ 2nd IMA کورس کے کیڈٹس کو تو پاکستان آتے ہی GHQ میں لا کر کمیشن دیدیا گیا لیکن 3rd IMA کورس کے کیڈٹس کو مزید تربیت کے لئے تیار رکھا گیا تا وقتیکہ پاکستان ملٹری اکیڈیمی شروع نہ ہو گئی۔
3rd IMA کورس کے برگیڈئیر اقبال شفیع نے بتایا کہ ڈیرہ دون میں بہت سے تعلیمی ادارے تھے جہاں پاکستان سے تعلق رکھنے والے بہت سے مسلمان طلبا بھی زیرتعلیم تھے۔ IMAکیڈٹس کو جب روانگی کا حکم ملا تو یہ لوگ ان اداروں میں گئے اور وہاں زیر تعلیم طلبا کو اپنی روانگی کے متعلق بتایا۔ جلدی میں ساتھ آنے کے لئے وہ بھی تیار ہو گئے۔ یہ لوگ انہیں بھی ساتھ لے آئے۔ جہاز میں انہیں بٹھانے کی گنجائش نہ تھی تو انہیں ان کیڈٹس نے گود میں بیٹھا کر سفر کیا۔
20جنوری 1948 کو پاکستان ملٹری اکیڈیمی شروع ہوئی تو ان تمام کیڈٹس کو مزید تربیت کے لئے کاکول بلایا گیا۔IMA کے کیڈٹ نمبر 391 جنٹل مین کیڈٹ رحیم الدین خان پاکستان ملٹری اکیڈیمی میں جنٹل مین کیڈٹ نمبر 1 قرار پائے۔ پاکستان آرمی سے بطور چیئر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل کے رینک میں ریٹائر ہوئے۔ یہ پہلا کورس IMA/PMAکہلایا۔