اتوار 21اپریل 2024ء کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ سیاسی اعتبار سے آج کا دن بہت اہم ہونا چاہیے تھا۔ ’ہونا چاہیے تھا‘ میں نے اس لیے لکھا کیونکہ مجھے ایسا ہوا نظر نہیں آرہا۔ مزید لکھنے سے قبل پسِ منظر یاد کرلیتے ہیں کہ آج ملک بھر میں قومی اسمبلی کی 5اور صوبائی اسمبلیوں کی 16نشستوں پر ضمنی انتخاب ہورہے ہیں۔
ملکی سیاست میں ’ضمنی انتخاب‘ کسی زمانے میں اہم ترین واقعہ شمار ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کل وقتی صحافت سے وابستہ ہونے سے قبل میرے زمانہ طالب علمی میں ان دنوں لائل پور کہلاتے فیصل آباد میں ایک ضمنی انتخاب ہوا تھا۔ اس شہر سے قومی اسمبلی کی ایک نشست مختار رانا کو ایک فوجی عدالت سے سزا پانے کی وجہ سے ’نااہل‘ قرار دینے کے نتیجے میں خالی ہوئی تھی۔ رانا صاحب پیپلز پارٹی کے بانی ہی نہیں بلکہ کٹر ’انقلابی‘ کارکن کی شہرت کے حامل تھے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ان کی جماعت کے قائد ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار فوجی آمر جنرل یحییٰ نے منتقل کیا تھا۔ اقتدار کی منتقلی ایک ’چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔موصوف کو اقتدار منتقل کرنے کے لیے لہٰذا ایک سویلین یعنی ذوالفقار علی بھٹو کو فوج سے کسی بھی نوع کا تعلق نہ رکھنے کے باوجود عبوری صدر کے علاوہ ’چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر‘ بھی تسلیم کرنا پڑا تھا۔فوجی عدالتیں بھی اس بندوبست کے تحت برقرار رہیں۔
مختار رانا اپنے ہی قائد کے غضب کا نشانہ اس وجہ سے ہوئے کیونکہ ان کی دانست میں ذوالفقار علی بھٹو فقط اقتدار کے حصول کے لیے پیپلز پارٹی کے اساسی اصولوں سے منحرف ہوگئے تھے۔ ’کٹر‘سوشلزم کے نفاذ کے علاوہ وہ بھٹو صاحب کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ہونے کی تندوتیز مخالفت اس بنیاد پر بھی کرتے رہے کہ پیپلز پارٹی کے اساسی اصولوں میں ’جمہوریت ہماری سیاست‘ کا نعرہ بھی شامل تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے وفاداروں کو مگر یہ شک لاحق ہوگیا کہ مختار رانا ’ایجنسیوں‘ میں شامل بھٹو مخالف عناصر کی شہ پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو مستحکم ہونے نہیں دیے رہے۔
بہرحال مختار رانا ’انقلابی سرگرمیوں‘ کی وجہ سے گرفتار ہوگئے۔ان کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلا اور ’بغاوت‘ کے الزام کے تحت طویل وسنگین سزا دی گئی۔ چند مہینے جیل میں گزارنے کے بعد اگرچہ وہ میوہسپتال لاہور کی ایک وارڈ میں ’علاج‘ کی خاطر منتقل کردیے گئے۔ میں طالب علمانہ اشتیاق سے مغلوب ہوا گورنمنٹ کالج لاہور سے اکثر انھیں ملنے کے لیے ہسپتال پہنچ جاتا اور ان کے انقلابی خیالات سنتے ہوئے جی گرماتا۔
ان کی گرفتاری اور نااہلی کے بعد فیصل آباد سے خالی ہوئی قومی اسمبلی کی نشست پر ایک ضمنی انتخاب ہوا۔ مختار رانا صاحب کی بہن جن کا نام غالباً زرینہ رانا تھا اپنے بھائی کی جگہ لینے کے لیے انتخابی میدان میں اترآئیں۔ ان کی حمایت میں تمام بھٹو مخالف جماعتیں یکجاہوکر فیصل آباد پہنچ گئیں۔ پیپلز پارٹی نے بالآخر وہ معرکہ جیت لیا تو اس کی جیت ’بدترین دھاندلی‘ کا مظہر بناکر لوگوں کے روبرو لائی گئی۔ مختار رانا کو ہرانے والے اگرچہ خود بھی پنجابی کے ایک نامور شاعر اور ناول نگار تھے اور ان کی تحریریں بھی ’انقلابی‘ شمار ہوتی تھیں۔
1970ء کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں ہوئے ضمنی انتخاب کا ذکر ذرا تفصیل سے اس نکتے کو اجاگر کرنے کی خاطر کیا ہے کہ جمہوری سیاست کا عمل اگر جاندار اور توانا مراحل سے گزررہا ہو تو ضمنی انتخابات ’تخت یا تختہ‘ والے معرکوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ کالم لکھتے ہوئے قومی اسمبلی کی 5اور صوبائی اسمبلی کی 16نشستوں پر جو انتخاب ہورہے ہیں ان کی تیاری کے لیے مجھے ایسی فضا بنی ہوئی نظر نہیں آئی۔ عرصہ ہوا عملی صحافت سے ریٹائر ہوجانے کے باوجود میں آج بھی خود کو جبلی طورپر ایک رپورٹر شمار کرتا ہوں۔آج سے دو دن قبل تک مجھے بھی علم نہیں تھا کہ اتوار کے روز قومی اسمبلی کی پانچ اور صوبائی اسمبلی کی 16نشستوں پر انتخاب ہورہے ہیں۔ایک صحافی دوست کے ساتھ لمبے وقفے کے بعد ملاقات ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ اتوار کے دن ہم ایک اور ملاقات بھی کرسکتے ہیں کیونکہ وہ راولپنڈی سے ایک ٹی وی نیٹ ورک کی ضمنی الیکشن کے حوالے سے ’خصوصی نشریات میں‘ شمولیت کے لیے اسلام آباد آئیں گے۔ ان نشریات میں شمولیت سے قبل وہ چائے پینے کے لیے شام پانچ بجے میرے ہاں آسکتے ہیں۔
ان کی پیشکش نے مجھے یاد دلایا کہ 21اپریل کے روز قومی اور صوبائی اسمبلی کی خالی ہوئی نشستوں پر ضمنی انتخاب ہونا ہیں۔میری ان انتخابات کے حوالے سے ’بے خبری‘ اس باعث بھی حیران وپریشان کن ہونا چاہیے کیونکہ میں ہر دن ملک کے چھ اردو اور انگریزی زبان میں چھپے اخبارات نہایت غور سے پڑھتا ہوں۔ اس کے علاوہ دن کے اوسطاً دو گھنٹے سوشل میڈیاپر نگاہ رکھنے میں بھی صرف ہوجاتے ہیں۔ ریگولر اور سوشل میڈیا کا مجھ جیسا صارف بھی اگر اتوار کے روز ہوئے انتخابات کے بارے میں متجسس تو دور کی بات ہے باخبر بھی نہیں تھا تو سیاستدانوں کو فکرمند ہونا چاہیے۔ میری بے خبری اور بے نیازی واضح انداز میں پیغام دے رہی ہے کہ اتوار کے روز جو ضمنی انتخابات ہوئے ہیں اس نے سیاسی جماعتوں کو حقیقی انداز میں متحرک نہیں کیا۔ ’تخت یا تختہ‘ والی بات نہیں بنی۔ بنیادی طورپر پنجابی محاورے والا ’ٹھنڈ پروگرام‘ ہے۔
سیاسی عمل کو متحرک رکھنے کے لیے تحریک انصاف اور دیگر حکومت مخالف جماعتیں اگر واقعتا سنجیدہ ہوتیں تو محض قومی اسمبلی کی لاہور سے خالی ہوئی ایک نشست پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے سیاسی محاذ پر تخت یا تختہ والی رونق لگائی جاسکتی تھی۔ قومی اسمبلی کی یہ نشست محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔ تحریک انصاف8فروری کی شام سے مسلسل یہ دعویٰ کررہی ہے کہ لاہور شہر میں بھی ان سے ’جیتی ہوئی نشستیں‘ انتخابی نتائج مرتب کرتے ہوئے ’چھین‘ لی گئی تھیں۔ اتوار 21اپریل کے دن قومی اسمبلی کی مریم نواز شریف کے صوبائی وزیر اعلیٰ منتخب ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی نشست پر اسے ایک تگڑا امیدوار کھڑا کرتے ہوئے اعصاب شکن مقابلے کا ماحول بنانا چاہیے تھا۔ اس سے مگر گریز کو ترجیح دی گئی ہے۔ میں اس گریز کے حقیقی اسباب کا سراغ لگانے میں قطعاً ناکام رہا ہوں۔