مصورِ پاکستان کا 82واں یوم وصال اور بانگِ دراء


آخرکب تک… طارق شہزاد
chtariqshahzad@gmail.com

آج ملک بھر میں علامہ اقبال کا بیاسیواں یوم وصال عقیدت و احترام کے ساتھ گزارا جا رہا ہے۔بانگِ دراء￿  حکیم الامت شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال کا پہلا  مجموعہ کلام ہے۔ اس مجموعے کا تعارف حاصلِ کلام ہے۔بانگ دراء  کی پہلی فصل   1924ء میں شائع ہوئی۔ " خطاب بہ نوجوان اسلام" مجموعے کی  پہلی نظم ھے ،جس میں اقبال نے مسلمان نوجوان کو براہ راست مخاطب کر کے اس سے اپنے دل کی بات کہی ھے - نظم اس شعر سے شروع ہوتی ھے :
کبھی اے نوجواں مسلم ! تدبر بھی کیا تو نے ؟
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ھے اک ٹوٹا ہوا  تارا ؟ 
اقبال نوجوان سے مخاطب ہوتے اور اس پر ماضی و حال کا فرق یوں واضح کرتے ہیں :
تجھے آبا سے اپنے کوء نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تو گفتار ' وہ کردار ' تو ثابت ' وہ سیارہ
گنواہ دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پاء تھی
ثریا سے زمین پر آسماں نے ہم کو دے مارا
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئین مسلم سے کوء چارہ
مگر وہ علم کے موتی ' کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ھے سیپارہ
اقبال شناساؤں اور محققین نے بانگ دراء  کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔
پہلا دور : 
 بانگِ دراء کی شاعری علامہ اقبال نے 20 سال کے عرصے میں رقم کی۔ کتاب کا پہلا دور 1905ء￿  تک کی لکھی گئی بچوں کی نظموں، اور حب الوطنی پر مبنی ترانہ ہندی "سب سے اچھا ہندوستان ہمارا " پر مشتمل ہے۔
دوسرا دور:
 دوسرا دور 1905ء￿  تا 1908ء￿  کہ اس دور پر محیط ہے ،جب آپ برطانیہ  تشریف لے گئے تھے۔ وہاں کی علمیت اور عقلیت نے تو آپ کو بہت متاثر کیا اور آپ نے اسے سراہا۔ مگر وہاں کی مادہ پرستی اور روحانیت کی کمی پر آپ نے خوب تنقید کی۔ اس مجموعے کے دوسرے حصے نے آپ کو اسلام کی آفاقی اقدار کے قریب کر دیا۔ چنانچہ آپ نے مسلمانوں کو جگانے کے لیے اس مجموعے کے دوسرے حصے میں  انقلابی شاعری کا آغاز کیا۔
تیسرا دور :
1908  سے 1923ء￿ تک کے درمیان لکھی گئی شاعری پر مشتمل ہے ،جس میں انہوں نے مسلمانوں کے عظیم ماضی کی انہیں یاد دلائی۔ انہوں نے مسلمانوں کو تمام سرحدوں سے بالاتر ہو کر اب سے اخوت اور بھائی چارے کا مطالبہ کیا۔ اس مجموعے کے تیسرے حصے میں نظم "طلوع اسلام" "شکوہ جواب شکوہ $بھی شامل ہیں۔ جس کو پڑھنے کے بعد جس کو پڑھنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اقبال کو کیوں حکیم الامت اور امت کا نبض شناس کہا گیا۔عہد حاضر میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور آشفتہ سری کے آئینہ روزگار میں اگر بانگ دراء￿  کا اگر فکری مطالعہ کیا جائے، تو یہ کتاب امّت  مسلمہ کی نیہ کو پار لگانے اور اس کی شیرازہ بندی کے لیے ایک امرت دھارا یے۔ بقول معروف اقبال شناس خلیفہ عبدالحکیم "اقبال قران کا شاعر ہے"
ایک ہوں  مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے  
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر 

ای پیپر دی نیشن