دین اور لادینیت میں تصادم

دُنیائے اسلام میں دین اور لادینیت میں تصادم نے مصر میں انتہائی اندوہناک صورت اختیار کر لی ہے۔ دین اور لادینیت کے درمیان یہ تصادم پوری دُنیائے اسلام میں جاری ہے۔سیکولرزم کے مسلک پر قائم رہنے والوں کا کوئی نہ کوئی مذہب تو ضرور ہوتا ہے مگر وہ اپنے مذہب کو اپنی نجی زندگی تک محدود رکھتے ہیں جبکہ دینِ اسلام ایک مکمل ضابطہ¿ حیات ہے۔اقبال نے اپنی ایک نظم ”لادین سیاست“میں سیکولرسیاست کو”شیطان کی بے ضمیر کنیز“ قرار دیا ہے۔آج کے مصر میں لادین سیاست نے انتہائی بھیانک شکل اختیار کر لی ہے۔ اب تک ایک ہزار سے زیادہ مسلمان شہید کیے جا چکے ہیں۔ اِس قتلِ عام نے مسجدوں کے صحنوں اور صفوں کو بھی خون میں نہلا دیا ہے۔
مصری فوج کے ہاتھوں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ یہ سفّاکانہ طرزِ عمل انورالسادات اور حسنی مبارک کی امریکی تربیت یافتہ فوج ہی سرانجام دے سکتی ہے۔ شاید اِسی احساس کے پیشِ نظر جنرل اسیسی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ریٹائرڈ فوجی جرنیلوں کو صوبائی گورنر مقرر کر دیا تھا۔ گزشتہ روز کے قتلِ عام نے تو برطانوی ہند میں جلیانوالہ باغ کے قتلِ عام کی یاد تازہ کر دی ہے۔ جنرل اسیسی کی اِس فرعونی حکمتِ عملی کی داد مصر کے دو ہمسایہ ممالک نے جی کھول کر دی ہے۔ مصر میں تعینات اسرائیلی سفیر نے جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے والے جنرل اسیسی کو یہودیوں کا ہیرو قرار دیا ہے۔ تل ابیب سے ثنا نیوز کے رپورٹر نے خبر دی ہے کہ اسرائیل یہودیوں کے اِس نئے ہیرو جنرل اسیسی کی قیادت میں نئے سرے سے گرمجوشی کے تعلقات اُستوار کرنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب سعودی حکومت کی جانب سے بھرپور اخلاقی اور مالی امداد کے بعد اخوان المسلمون کے خلاف نئی انضباطی کارروائیاں بھی عمل میں لائی جانے لگی ہیں۔ سعودی شہزادہ الولید بن طلال نے اپنے ٹی وی چینل ’الرسالہ ‘سے مقبول ترین مذہبی سکالر طارق السویدان کو برخاست کر دیا ہے۔ اِس عرب دانشور کا جُرم اخوان المسلمون کی حمایت میں مذہبی انتہا پسندی کے جذبات کو ہوا دینا بتایا گیا ہے۔ خبر رساں ایجنسی رائٹر کے مطابق طارق السویدان سے جب اپنے اِس ’جرم‘ پر نادم ہونے کو کہا گیا تو اُنہوں نے فخریہ لہجے میں کہا کہ میری نگاہ میں روٹی روزگار کی خاطر اپنے اصولوں پر سودابازی ایمان و اعتقاد سے روگردانی کے مترادف ہے۔ عرب مسلمانوں کی اِس فکری صلابت اور دینی استقامت نے پوری عرب دُنیا میں سلاطین و شیوخ کو اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے۔ عرب حکمرانوں کے مغربی سرپرست بھی اس اضطراب میں شریک ہیں۔ یہ لوگ ثالثی کے نام پر فوجی جرنیل کی بغاوت کو جائز اور برحق منوانے کے لیے نِت نئے دلائل پیش کرنے میں مصروف ہیں۔ سلاطین و ملوک کی اِن بیرونی سرپرستوں کے طرزِ فکر و عمل کو سمجھنے میں Amr Darrag کا تازہ مضمون بعنوان Egypt's blood, America's complicity (مطبوعہ نیویارک ٹائمز ،17/18۔اگست) ہماری مدد کر سکتا ہے۔مضمون نگار صدر مُرسی کی کابینہ میں منصوبہ بندی اور بین الاقوامی تعاون کی وزارت کے سربراہ تھے۔
وزیرِموصوف نے اپنے اِس مضمون میں امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کیساتھ ساتھ یورپی سفارت کاروں کے اِس استدلال کو سراسر عیاری قرار دیا ہے جس میں مظاہرین کو تشدد سے گریزاں رہنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ اُن کا کہنا یہ ہے کہ تشدد تو فوج کی جانب سے پُرامن شہریوں پر کیا جا رہا ہے۔ اِن مغربی سفارت کاروں کی جانب سے اُلٹا فوجی تشدد کی شکار خلقِ خدا کو ظالم و جابر حکومت کی اطاعت کی تلقین کی جا رہی ہے۔ مضمون نگار نے اِس ضمن میں جان کیری کے اِس قول پر حیرت و استعجاب کا اظہار کیا ہے کہ جنرل اسیسی کی فوجی بغاوت مصر میں” بحالی¿ِ جمہوریت “کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مصر کی موجودہ فوجی قیادت پر امریکی دباﺅ کے تذکرے میں وزیرِ موصوف نے لکھا ہے کہ ” وہ ایک مصری افسر نہ تھا بلکہ امریکی افسر تھا جس نے صدر مُرسی کے سٹاف کو اطلاع دی تھی کہ بالآخر فوجی بغاوت کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ “ اِس مضمون نگار کے مطابق جنرل اسیسی ایک آزاد اور خود مختار باغی ہرگز نہیںبلکہ امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کا ایک کٹھ پتلی جرنیل ہے۔ اِس مضمون میں مصر کے موجودہ سنگین بحران سے نجات کا راستہ تلاش کرنے والوں کے لیے درج ذیل چار امور پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے:
اوّل: یہ جنگ جمہوریت اور آمریت کی قوتوں کے مابین برپا ہے۔ ایک طرف آزادی، جمہوریت، انسانی عزووقار اور رواداری کی قوتیں ہیںجو بیلٹ باکس کے ذریعے انتقالِ اقتدار پر یقین رکھتی ہیں اور دوسری جانب وہ قوتیں ہیں جو عوام پر فوجی تسلط کے قیام سے عسکریت پسندی کو ہوا دینے کی خُوگر ہیں۔
دوم: فوجی بغاوت نے مصر کو ایک مرتبہ پھر ازمنہ¿ تاریک میں دھکیل دیا ہے جہاں تمام آزادذرائع ابلاغ کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے اور حزبِ اختلاف کے تمام سرکردہ سیاستدانوں کو کسی فرد جرم کے بغیر جیلوں میں بند کر دیا گیا ہے۔
سوم: جنرل اسیسی کے کسی وعدے پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ وہ عادی وعدہ فراموش ہے۔ اُس نے آئین کی وفاداری کا حلف اُٹھایا تھا مگر پھر آئین کو توڑ دیا۔ اُس نے صدر مُرسی کی حکومت سے وفاداری کا عہد کیا مگر پھر اِسی حکومت کا تختہ اُلٹ کر رکھ دیا۔ اُس نے فوجی جنتا کے دوغلے پن کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے حزبِ اختلاف کو تو غیر ملکی طاقتوں سے جوڑ توڑ کا الزام دیا مگر خود مغربی سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ ہمسایہ عرب ریاستوں سے مالی عطیّات قبول کیے۔
چہارم: مصر کے موجودہ سیاسی بحران کا فقط ایک حل ہے اور وہ یہ کہ صدر مرسی کی منتخب حکومت کو بحال کر دیا جائے۔ بحالی¿ِ جمہوریت کے اِس اقدام کے بعد ہی ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھ سکتے ہیں۔ مصر میں ہمیں جو صورتِ حال درپیش ہے وہ کوئی نئی صورتِ حال نہیں ہے۔ ہم اِس کے پیچ و خم سے بخوبی آشنا ہیں۔ غاصب فوجی جرنیل تشدد اور دہشت ، رنج اور غم ، انجماد اور تعفن کا سوداگر ہے۔ ہم یہ سودا خریدنے سے انکاری ہیں۔ امریکہ بھی انکاری ہو جائے۔
محبوس صدر مُرسی کی معزول کابینہ کے اِس وزیر کا درج بالا استدلال نظریاتی استقامت کی روشن مثال ہے۔ مغربی حکومتوں کی جانب سے مصر کی غاصب حکومت کے خلاف عوامی غیض و غضب کے طوفان کا زور توڑنے کی خاطر جو سفارتی مہم جاری ہے اُسے اِس استدلال نے بے اثر بنا کر رکھ دیا ہے۔ اِدھر سعودی حکومت نے بھی ایک سفارتی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔ سعودی وزیرِ خارجہ شہزاد سعود الفیصل نے مصر کی موجودہ غیر آئینی حکومت کو یقین دلایا ہے کہ اگر عوامی دباﺅ میں آ کر مغربی حکومتیں مصر کی امداد سے دستکش ہو جاتی ہیں تو سعودی عرب مصر کا یہ تمام خسارہ پورا کر دے گا۔ اپنے اِسی بیان میں اُنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کے تمام ممالک کو خبردار کیا ہے کہ اخوان المسلمون ہر ملک کے لیے خطرہ ہے۔ چنانچہ مصر کے تمام ہمسایہ ممالک کو مصر کی امداد پر کمربستہ ہو جانا چاہیے۔ قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمسایہ عرب ممالک کی برملا امداد اور مغرب ممالک کی درپردہ اعانت اخوان المسلمون کو ایک مرتبہ پھر زیرِزمین سیاسی عمل پر مجبورکر سکتی ہے۔ اِس امکان پر غور کرتا ہوں تو مجھے 6۔اکتوبر 1981ءمیں صدر انورالسادات کے قتل کا سانحہ یاد آتا ہے۔ یہ سانحہ اُس وقت پیش آیا تھا جب انورالسادات اپنی کابینہ کے ارکان، اپنے حامی علمائے کرام اور معزز غیر ملکی مہمانوں کی معیت میں سالانہ پریڈ کا معائنہ فرما رہے تھے۔ قاتل نے بہ آوازِ بلنداعلان کیا تھا : ”میرا نام خالدالاسلام ہے۔ میں نے فرعون کو قتل کر دیا ہے اور میں موت سے ہر گز نہیں ڈرتا“!

فتح محمد ملک ....دنیائے اسلام

ای پیپر دی نیشن