وزیراعظم پاکستان نوازشریف کا اکثر عمرہ کے لئے مکہ مکرمہ جانا اور پھر روضہ¿ رسول پر حاضری کی سعادت حاصل کرنا اور پھر مسجد نبوی میں عبادات کا اعزاز پانا یقیناً ایک قابل تحسین عمل ہے مگر حضرت علامہ اقبالؒ کا یہ شعر بھی دعوت فکر دیتا ہے کہ ....
زائرانِ کعبہ سے اقبال یہ پوچھے کوئی
کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سِوا کچھ بھی نہیں
کیا میاں نوازشریف نے مسجد نبوی میں نمازیں ادا کرتے ہوئے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ یہی مسجد نبوی حضور نبی¿ کریم اور خلافت راشدہ کے دور میں حکومت کا سیکرٹریٹ بھی تھی۔ یہی ایوانِ مملکت، پارلیمنٹ کی نشست گاہ، ایوانِ عدل اور کمیونٹی سنٹر بھی تھی۔ ہمارے پیارے نبی امور حکمرانی یہی سرانجام دیتے تھے۔ اسلام کا سیاسی نظام انسانی آزادی کا سب سے بڑا ضامن ہے۔ اسلام میں اللہ کی حکمرانی سے مراد یہ ہے کہ مسلمان اللہ کی آخری کتاب کے احکامات کو اپنا حکمران سمجھیں اور مسلمانوں کا سربراہ کتاب اللہ کے مطابق اپنے فرائضِ حکمرانی ادا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی احکامات کے اجتماعی نفاذ کے لئے مسلمانوں کی اپنی ایک آزاد مملکت ہونی چاہئے۔ انفرادی مذہبی آزادی تو مسلمانوں کو انگریز کے دور غلامی میں بھی حاصل تھی اور اگر ہندوستان متحد رہتا تو بھی عبادات کی حد تک مسلمان آزاد ہوتے لیکن وہ جو علامہ اقبال نے فرمایا تھا کہ ....
مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
تو اس کا مطلب یہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اسلام کے اجتماعی نظام حیات پر عمل صرف ایسی صورت ہی میں ممکن تھا کہ جب مسلمانوں کی اپنی ایک آزاد مملکت ہوتی۔ گویا سجدوں کی آزادی کے لئے نہیں بلکہ اسلام کی آزادی کے لئے پاکستان کے قیام کو ضروری سمجھا گیا۔ اسی طرح ہم یہ گزارش کریں گے کہ نوازشریف یا پاکستان کا کوئی اور حکمران جب عمرہ یا حج کے لئے جائیں تو وہ خانہ کعبہ یا مسجد نبوی کے صحن میں صرف سجدے ادا کرنے کی رسم پوری نہ کریں بلکہ وہ اللہ کے گھر میں اور مسجد نبوی میں روضہ¿ رسول کے سامنے کھڑے ہو کر یہ عہد کریں کہ اُن کا دور حکومت خالص اسلام کی حکمرانی کا دور ہو گا اور وہ فرائضِ حکمرانی ادا کرتے ہوئے اللہ اور اُس کے آخری رسول کی مکمل اطاعت کریں گے۔ ایک مسلمان حکمران کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنا محاسبہ خود کرے۔ یہاں تو صدر اور وزیراعظم یہ کہتے ہیں کہ انہیں استثناءحاصل ہے۔ قانون خداوندی کے سامنے تو سب برابر ہیں پھر صدر اور وزیراعظم کو استثناءکیوں حاصل ہو۔ نوازشریف کو اس وقت پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ کیا نواز شریف آئین میں ترمیم کے ذریعے صدر اور وزیراعظم کے استثنا کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اگر وہ خود کو ایک اسلامی ریاست کا مسلمان حکمران سمجھتے ہیں تو انہیں سب سے پہلے اپنے آپ کو محاسبہ کے لئے پیش کرنا چاہئے۔ ایک اسلامی حکومت میں محاسبہ کا یہ منظر تاریخ کے اوراق میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ جیسے جلیل القدر صحابی اور وقت کا خلیفہ منبر پر تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت سلمان فارسیؓ نے کہا کہ ہم آپ کی بات بعد میں سنیں گے پہلے یہ وضاحت کر دیں کہ چادر تو ایک ایک تقسیم ہوئی تھی مگر آپ نے دو چادریں پہن رکھی ہیں۔ حضرت عمر فاروقؓ اس احتساب کا بُرا نہیں منایا بلکہ اپنی صفائی پیش کی۔ ایک اور موقع پر حضرت عمرؓ نے برسرِ منبر کھڑے ہو کر مجمع سے پوچھا کہ اگر میں دنیا کی طرف جھک جھاﺅں تو تم کیا کرو گے۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر تلوار اپنی نیام سے نکال لی اور کہا کہ اے عمر میں تمہارا سر اڑا دوں گا۔ آپ نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ہماری قوم میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو اپنے حاکم کی غلطی کو بھی برداشت نہیں کرتے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کے حکمرانوں میں بھی ایسا جذبہ موجود ہے کہ وہ خود کو سچے دل سے قوم کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہوں۔ ایک دنیادار حکمران اور اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلے ہوئے حکمران میں یہی فرق ہے کہ دنیادار حکمرانوں کے کان صرف جھوٹی تعریفیں سننے کے عادی ہوتے ہیں مگر ایک مسلمان حکمران کی نظر روز قیامت پر ہوتی ہے۔ وہ اس خوف سے لرزتا رہتا ہے کہ اگر میں نے کوئی غلطی کی، رعایا کی خدمت میں مجھ سے کوتاہی ہو گئی یا میں نے قومی خزانے میں خیانت کی تو مجھے میرا اللہ کیسے معاف کرے گا۔ مجھے یہاں حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت کا ایک اور واقعہ یاد آگیا ہے کہ شام کی ایک بوڑھی عورت نے حضرت عمرؓ سے کہا کہ اگر عمرؓ کو اپنی رعایا کے ہر فرد کے حالات کا علم نہیں تو اُسے حکومت کرنے کا کیا حق حاصل ہے۔ وہ فرماتے کہ خلافت کیا ہے؟ اس کا مفہوم مجھے شام کی ایک بڑھیا نے بتایا۔ ہمارے موجودہ حاکموں کا حال دیکھ لیجئے کہ وہ کون سا دن ہے جب پاکستان کے کسی نہ کسی شہر میں صرف دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے ہاتھوں درجنوں بے گناہ افراد قتل ہو جاتے ہیں۔ ایسے بھی سانحات ہوئے کہ ایک دن میں ڈیڑھ سو اور کبھی دو سو سے زیادہ انسان قتل کر ڈالے گئے مگر ہمارے بے رحم اور سنگدل حکمرانوں کی آنکھوں سے کبھی ایک آنسو بھی نہیں ٹپکا۔ ہمارے حکمران تو اس شعور سے بھی محروم ہیں کہ وہ دہشت گردی جس کے نتیجہ میں ہزاروں پاکستانی ناحق قتل کر دئیے گئے اور وہ دہشت گردی جو پاکستان کی سلامتی کے لئے سب سے بڑا چیلنج بن گئی ہے اس کا اصل ذمہ دار کون ہے؟ اگر نواز شریف صاحب کو اس کا علم ہو چکا ہے تو وہ وزیراعظم کی حیثیت میں قوم کو اعتماد میں لیں اور یہ بھی بتائیں کہ وہ دہشت گردی جو ہزاروں پاکستانیوں کا لہو پی چکی ہیں اس کا حل مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے پاس کیا ہے۔ نواز شریف کی حکومت کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ اگر امریکہ ہمیں دہشت گردی کے سنگین مسئلے کا حل ہمیں اپنی آزادانہ مرضی سے کرنے کی اجازت نہیں دیتا تو ایک آزاد اور خودمختار ملک کے طور پر پاکستان کا کردار کیا ہونا چاہئے اور پاکستان اپنی آزادی اور خودمختاری کو ثابت کرنے کے لئے نوازشریف کے دور حکومت میں کب اپنا پہلا قدم اٹھائے گا؟ اگر دہشت گردی کے خلاف پرویز مشرف، آصف زرداری اور نوازشریف کی پالیسی امریکہ نواز ہی رہی اور ہم نے اپنے فیصلے خود کرنے کا راستہ نہ اپنایا تو پھر ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔