اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ
جس دئیے میں جان ہو گی وہ دیا رہ جائے گا
یہ بات خوش آئند ہے کہ الیکشن کمشن آف پاکستان کے حکم پر 22 اگست کو چاروں صوبوں میں قومی اسمبلی کی 16اور صوبائی اسمبلی کی 26 کل 42 نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں منعقدہ اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور جھل مگسی سمیت تمام علاقوں میں حالیہ بارشوں اور سیلاب کے باوجود انتخابات کا انعقاد شیڈول کے مطابق ہو گا۔ انتخابات کے لئے ملک بھر میں 42 حلقوں میں کل 7606 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جن میں سے 3080 نارمل 2686 حساس جبکہ 1840 حساس ترین قرار دئیے گئے ہیں۔ حساس پولنگ سٹیشنوں پر فوج سٹیشن کے باہر جبکہ حساس ترین پولنگ سٹیشنوں پر اندر اور باہر تعینات ہو گی۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق چونکہ ضمنی انتخابات کا انعقاد گیارہ مئی کے عام انتخابات کے 3 ماہ اور گیارہ یوم بعد کیا جا رہا ہے اس لئے یہ انتخابات نہ صرف مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی تاحال کارکردگی کے بارے میں عومی ردعمل کے آئینہ دار ہوں گے بلکہ پاکستان تحریک انصاف کے ان دعوﺅں کی قلعی بھی کھول دیں گے کہ ان کے ساتھ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کی گئی تھی۔ ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کی جن نشستوں پر کاٹنے دار مقابلوں کی توقع ہے ان میں NA-1 پشاور، NA-25 ڈی آئی خان، NA-48 اسلام آباد، NA-71 میانوالی، N-235 سانگھڑ NA-237 ٹھٹھہ اور NA-262 قلعہ عبداللہ چمن نمایاں ہیں۔ تمام نظریں خیبر پختونخواہ کی نشست NA-1 پر جمی ہوئی ہیں۔ پشاور میں واقع اس حلقہ میں گزشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اے این پی کے رہنما حاجی غلام احمد بلور کو چھیاسٹھ ہزار کے بڑے مارجن سے شکست دی تھی۔ اب عمران خان کا نمائندہ گل بادشاہ اے این پی کے امیدوار کا مقابلہ کرے گا۔ اسی طرح ڈیرہ اسماعیل خان کی قومی اسمبلی کی نشست NA-25 جس پر گیارہ مئی کو مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے داور خان کنڈی اور پی پی پی کے امیدوار فیصل کریم کنڈی کو شکست فاش دی تھی ایک مرتبہ پھر 22 اگست کو پانی پت کی چوتھی لڑائی کا نقشہ پیش کرے گی۔ اس مرتبہ اسد محمود ان کا مقابلہ کرے گا۔ اسلام آباد کی نشست NA-48 پر بھی ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔ اس مرکزی نشست پر پی ٹی آئی کے رہنما اسد عمر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار چودھری اشرف گجر کا سامنا کریں گے۔ تاحال یہاں پر پی ٹی آئی کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے کیونکہ یہ سیٹ تحریک انصاف کے رہنما نے خالی کی تھی اور دوسرے مسلم لیگ (ن) نے اندرونی خلفشار کے باعث اپنے امیدوار کا اعلان قدرے تاخیر سے کیا ہے۔ علاوہ ازیں اسد عمر کو جماعت اسلامی کے رہنما میاں محمد اسلم کی حمایت بھی حاصل ہے۔ قومی اسمبلی کی نشست NA-64 کا تعلق سرگودھا سے ہے یہاں پر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سردار محمد شفقت حیات خان اور اس جماعت کے قائد جاوید حسنین شاہ کے درمیان قریبی مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ یہ نشست حسنین شاہ نے 2008ءکے انتخابات میں جیتی تھی مگر جعلی ڈگری کے باعث اسے مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ NA-71 نشست کا تعلق میانوالی سے ہے۔ یہ تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے خالی کی تھی۔ حافظ آباد کی نشست NA-103 پر بھی کانٹے دار مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اس نشست پر پی ٹی آئی کے امیدوار شوکت علی بھٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے رہنما میاں شاہد حسین خان بھٹی قسمت آزمائی کریں گے۔ گیارہ مئی کے انتخابات میں یہ نشست مہدی حسن بھٹی کے بھائی لیاقت بھٹی نے جیتی تھی مگر دھاندلی کے الزامات پر نتائج کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔ اس اعتبار سے حلقہ میں فضا بڑی دھواں دار ہے کیونکہ مہدی بھٹی نے اپنے بیٹے کو پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر اکھاڑے میں اتارا ہے۔
حلقہ NA-129 میں سابقہ انتخابات میں میاں شہباز شریف نے کامیابی حاصل کی تھی اب اس جماعت کی رہنما شازیہ مبشر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے اس نشست کا دفاع کریں گی۔ تاہم پاکستان تحریک انصاف کے لئے ایک سنہری موقع ہے کہ وہ یہاں کامیابی حاصل کرکے یہ ثابت کر دے کہ گیارہ مئی کو دھاندلی کے لگائے گئے اس کے الزامات درست تھے۔ مظفرگڑھ کی نشست NA-177 پر پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما غلام ربانی کھر کا مقابلہ جمشید دستی کے بھائی جاوید دستی سے ہو گا۔ یہ نشست جمشید دستی نے خالی کی تھی۔ علاوہ ازیں پاکستان مسلم لیگ (ن) یہ حلقہ خالی چھوڑ دیا ہے۔ صوبہ سندھ میں سانگھڑ میرپور خاص کی نشست قومی اسمبلی NA-235 پر بھی دلچسپ مقابلے کی توقع کی جا رہی ہے۔ گیارہ مئی کو اس نشست پر پاکستان مسلم لیگ فنکشنل کے رہنما پیر صدرالدین شاہ راشدی نے فتح کے جھنڈے لہرائے تھے مگر بعدازاں خیرپور کی نشست NA-216 کے لئے اسے خالی کر دیا تھا۔ اس علاقہ میں روایتی طور پر فنکشنل لیگ کو کامیابی ملتی آ رہی ہے تاہم اس بار پی پی پی کی رہنما شازیہ مری پاکستان مسلم لیگ (ف) کے امیدوار خدا بخش درس کا مقابلہ کرے گی۔ اسی طرح صوبہ سندھ میں ٹھٹھہ کی نشست NA-237 بھی ضمنی انتخابات میں عوامی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یہاں پر گزشتہ انتخابات میں پی پی پی کے امیدوار صادق میمن نے صرف 2700 ووٹوں کی اکثریت سے میدان مارا تھا۔ تاہم عدالت نے اس نشست کو خالی قرار دے دیا تھا کیونکہ اس کی دوہری شہریت کو شرف قبولیت نہ مل سکا تھا۔ مگر اب پارٹی نے اس کی والدہ کو ٹکٹ دی ہے تاکہ ووٹ بنک سے فائدہ حاصل کیا جا سکے اس طرح اب شمس النسا میمن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار ریاض حسین شیرازی کے مدمقابل ہوں گی۔ شیرازی کو جام گوہرام کی حمایت حاصل ہے جس نے صوبائی اسمبلی کے انتخاب میں 20 ہزار ووٹ حاصل کئے تھے۔ صوبہ بلوچستان میں بھی ضمنی انتخابات نے انتخابی فضا کو گرما دیا ہے۔ قلعہ عبداللہ چمن کی نشست NA-262 پر صوبے کی دو بڑی جماعتیں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اور جے یو آئی (ایف) ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں۔ گزشتہ چھ انتخابات میں ان دونوں جماعتوں نے یہ نشست تین تین بار جیتی ہے۔ 22 اگست کے ضمنی انتخابات کے نتائج پاکستان کی سیاست کے لئے اہم ہوں گے کیونکہ ان سے عوام کے سیاسی رجحان کا اندازہ لگانے میں مدد ملے گی۔ مزید برآں یہ بھی عیاں ہو جائے گا کہ لوگ حکمران جماعت کے اقدامات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔