لگتا ہے بینظیر بھٹو کو پورے ”گاوں“ نے مارا: ہیرالڈو مونوز

Aug 22, 2013

واشنگٹن (بی بی سی اردو ڈاٹ کام) بینظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کیلئے اقوام متحدہ کی کمیشن کے سربراہ چلی کے سفیر ہیرالڈو مونوز نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ لگتا ایسا ہے کہ سابق وزیرِاعظم کو پورے گاوں ہی نے قتل کیا ہے۔ یہ بات چلی کے سفیر ہیرالڈو منوز کی کتاب ”گیٹنگ وے ود مرڈر“ میں لکھی ہے۔ ہیرالڈو مونوز نے بینظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے لکھتے ہوئے کہا ہے کہ اسکی تحقیقات کے دوران مجھے ایک سپین کا ڈرامہ یاد آ گیا جس میں ایک گاو¿ں کی ناپسندیدہ شخصیت کو قتل کردیا جاتا ہے اور مجسٹریٹ ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ تحقیقات میں سب ہی گاو¿ں والے کہتے ہیں کہ یہ قتل فوئنٹے اووجنا نے کیا ہے۔ ہیرالڈو نے لکھا ہے کہ فوئنٹے اووجنا کی طرح بینظیر بھٹو کو بھی پورے گاو¿ں نے قتل کیا۔ القاعدہ نے حکم دیا، پاکستانی طالبان نے حکم پر علمدرآمد کیا، طالبان کو ممکنہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے چند عناصر کی مدد حاصل تھی، مشرف حکومت کی لاپرواہی کے باعث یہ جرم مرتکب ہوا، سینئر پولیس افسران نے کور اپ کی کوشش کی، بھٹو کی سکیورٹی ٹیم ناکام رہی، اور پاکستان کے سیاستدان تحقیقات کی بجائے آگے چلنے پر اکتفا کریں گے۔ ہیرالڈو کا خیال ہے کہ یہ قتل بھی ان جرائم میں شامل ہو گیا ہے جو کبھی حل نہیں ہو پائے۔ ہیرالڈو نے لکھا ہے کہ جب کمشن نے بری فوج کے سربراہ جنرل کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا سے ملاقات کرنے کی درخواست کی تو حکومت نے انکار کردیا۔ ایک حکومتی اہلکار نے مشورہ دیا کہ ملاقات کیلئے جنرل کیانی کو براہ راست درخواست کریں۔ اس حوالے سے کئی دفعہ غیر رسمی بات چیت ہوئی اور میں نے دھمکی دی کہ اگر فوج کے سربراہ اور آئی ایس آیی کے سربراہ سے ملاقات نہیں کرائی جائیگی تو یہ کمشن دوبارہ پاکستان نہیں آئے گا۔‘ ہیرالڈو کے مطابق ان کو ملاقات کی اجازت مل گئی۔ ہیرالڈو نے لکھا ہے کہ جنرل کیانی سے ملاقات جنرل شجاع سے ملاقات سے زیادہ غیرمعمولی تھی۔ جنرل کیانی صرف مجھ سے ملنے کیلئے تیار ہوئے۔ مجھے 25 فروری کی رات کو اقوام متحدہ کے صرف ایک سکیورٹی گارڈ کے ہمراہ اس گاڑی میں آرمی ہاو¿س آنے کا کہا گیا جو بلٹ پروف بھی نہیں تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ شرط کس کی جانب سے رکھی گئی تھی۔ آرمی ہاو¿س پہنچنے پر جنرل کیانی نے جو سولین لباس پہنے ہوئے تھے مجھ سے ملاقات کی۔ ’کمرے میں ایک اور شخص موجود تھا جو بات چیت کے نوٹ لے رہا تھا۔ پہلے آرمی ہاو¿س کی مرمت اور تزئین و آرائش پر بات ہوتی رہی۔ ہیرالڈو لکھتے ہیں کہ انہوں نے جب مشرف اور بینظیر کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بارے میں پوچھا تو جنرل کیانی نے کہا یہ کیوں مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ میں نے غصے میں کہا کہ اسلئے کہ بینظیر کی پاکستان واپسی سے قبل جو مذاکرات ہوئے تھے اس میں وہ بھی موجود تھے۔ جنرل کیانی نے کہا کہ معاہدے کے مطابق بینظیر بھٹو نے سال کے آخر میں پاکستان واپس آنا تھا لیکن وہ جلدی آ گئیں۔ جنرل کیانی نے مجھے یقین دلایا کہ ”ڈیل“ کے تحت بینظیر نے وزیرِاعظم ہونا تھا اور مشرف نے صدر، کتاب میں لکھا گیا ہے کہ جنرل کیانی نے کہا پولیس نے غیر پیشہ وارانہ رویہ اختیار کیا۔ اگر پہلے چوبیس گھنٹوں میں کرائم سین کو محفوظ نہیں جاتا تو تمام شواہد ضائع ہو جاتے ہیں۔ ہیرالڈو نے لکھا ہے کہ آئی ایس آئی کا یا چند عناصر کے اس جرم میں ملوث ہونے کا شبہات بے بنیاد نہیں ہیں۔

مزیدخبریں