قاہرہ (بی بی سی+اے ایف پی+این این آئی) مصر کی ایک عدالت نے حسنی مبارک کو بدعنوانی کے مقدمہ میں بری کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں کہ انہیں بدھ ہی کو جیل سے رہا کیا جائے گا یا نہیں۔ استغاثہ کے وکیل اس عدالتی فیصلے کے خلاف اب بھی اپیل کر سکتے ہیں۔ انکے وکیل کا کہنا ہے آج کسی بھی وقت رہا کردیا جائیگا۔ مصر کے سابق صدر پر دو ہزار گیارہ میں ملک میں ان کے خلاف ہونے والی بغاوت کے دوران مظاہرین کے قتل کی سازش اور بدعنوانی کے الزامات کے مقدمے کا دوبارہ سامنا کر رہے تھے۔ پچاسی سالہ سابق صدر کو جون 2012 میں 2011 کے مظاہروں کے دوران مظاہرین کو ہلاک کرنے کی سازش کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ مگر جنوری 2013 میں اس سزا کے خلاف ایک اپیل سماعت کے لیے منظور کر لی گئی تھی جس کے بعد مقدمہ دوبارہ چلانے کا حکم دیا گیا تھا۔ مقدمے کی دوبارہ سماعت مئی میں شروع ہوئی مگر حسنی مبارک اس مقدمے کے تحت دی جانے والی سزا کی زیادہ تر مدت پوری کر چکے تھے۔ حسنی مبارک کے وکیل فرید الدیب سے جب پوچھا گیا کہ ان کے موکل کے حق میں فیصلہ آنے کے بعد ان کی رہائی کب تک متوقع ہے تو انہوں نے کہا ’شاید کل‘۔ تاہم استغاثہ اس کے خلاف اپیل کرے گا جس سے صدر مبارک کی جیل سے روانگی کئی دنوں تک کے لیے تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس بدعنوانی کے مقدمے میں حسنی مبارک پر الزام ہے کہ انہوں نے حکومتی ناشر الاحرام سے تحائف وصول کیے۔ مبصرین کا کہنا تھا کہ حسنی مبارک کی رہائی اس بات کی علامت ہو گی کہ فوج اب ان تمام تبدیلیوں کو ختم کر رہی ہے جو دو ہزار گیارہ کی عوامی بغاوت کے بعد سامنے لائی گئیں تھیں۔پراسیکیوٹر جنرل نے کہا ہے کہ حسنی مبارک کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ ان کے اثاثے بدستور منجمد رہیں گے۔مصری فوجی ترجمان نے کہا کہ رہائی کی صورت میں حسنی مبارک کو انکی رہائشگاہ پر نظر بند رکھا جائیگا۔