پھر وہی خطاب پھر وہی کالم

نواز شریف سے کون پوچھے کہ اس طرح کے پہلے خطاب کی کیا ضرورت تھی۔ انہوں نے اتنی دیر خطاب نہ کیا تو اپنے دل کا کہا مانا۔ خطاب کیا تو اپنے ساتھیوں میں سے کس کا کہا مانا۔ آخر حکمران بننے کے بعد پہلے خطاب کی روایت کیا ہے۔ نواز شریف پانچ سال کے بعد آخری خطاب کرتے۔ یہ ایک نئی روایت ہوتی۔ اس خطاب میں کم از کم یہ بات تو ہوتی کہ پانچ سال کے بعد میں نے لوڈشیڈنگ ختم کر دی ہے۔ اس طرح وہ لوگوں کو حیران بھی کر سکتے تھے ورنہ وہ جانتے ہیں کہ لوگ صرف پریشان ہونے کے لئے پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح شاید انہیں اگلے پانچ سال مل جاتے۔ مگر کہتے ہیں کہ اگلی باری عمران خان کی ہے۔ اس سے مولانا کے ناراض ہونے کا خطرہ ہے۔ جو باری دیتے ہیں اور وہ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ خیبر پختونخوا کی باری مولانا کو دے دیں اور عمران سے صلح صفائی کرا کے انہیں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی بنا دیں۔ برادر کالم نگار فضل اعوان نے لکھا ہے کہ ”جب میاں صاحب کے پاس اب بھی کہنے کو کچھ نہ تھا تو خطاب کا تکلف کی کیا ضرورت تھی“ نواز شریف نے کہا وزیراعظم بننے سے پہلے مجھے اندازہ نہ تھا کہ حالات اتنے خراب ہیں۔ معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد بھی ابھی انہیں اندازہ نہیں ہوا کہ حالات کتنے خراب ہیں۔ حالات کے خراب تر ہونے کا بھی اندیشہ ہے۔ نوائے وقت کے کالم نگار چودھری اکرم کے کالم کا عنوان کافی ہے ”ایک نعرہ تکبیر کی ضرورت“ ہمیں یقین ہے کہ نواز شریف نعرہ تکبیر لگائیں گے۔ جب یہ کام اخلاص مہارت بے غرضی اور عزیزوں دوستوں کی ناجائز تعریف کرنے والے مفاد پرست کالم نگاروں اور خوشامدیوں کو نظرانداز کرکے کچھ کرنے کا ارادہ کر لیں گے تو وہ سب کچھ ہو جائے گا جس کا ترستے ہوئے پستے ہوئے بے نوا بے سہارا لوگوں کو انتظار ہے۔ اب تو وہ صبر کرنے کے بھی قابل نہیں رہے۔
اللہ کرے نواز شریف کامیاب ہوں۔ ان کی کامیابی پورے پاکستان کی سارے پاکستانیوں کی کامیابی ہو۔ حکمران کام کریں یا نہ کریں تعریف کرنے والے کالم نگار تعریف کرتے رہیں گے۔ تعریف کرنے کا اسلوب یہ ہو گا کہ جیسے اپنا تعارف کرا رہے ہوں۔ مفاد حاصل کرنے سے پہلے مفاد حاصل کرنے کے بعد ان کا انداز مختلف نہیں ہوتا۔ جانتے ہیں کہ کس کالم نگار نے کس کس حکمران سے فائدے اٹھائے ہیں۔ اس پر اعتراض نہیں کہ پاکستان جائز ناجائز فائدہ اٹھانے والوں کے لئے بنا ہے۔ مگر دکھ یہ ہے کہ اپنی ”قربانیوں اور دلیریوں“ کو بیان کرتے ہیں۔ وہ دلیر نہیں دیدہ دلیر ہیں۔ اپنے آپ کو نیک پاک بہادر حرمت قلم کا ٹھیکیدار بھی سمجھتے ہیں اور ان لوگوں پر اعتراض کرتے ہیں جنہوں نے کسی دور حکومت میں کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ گزارش یہ ہے کہ پڑھنے والے سب جانتے ہیں کہ کون کیا ہے۔ میں نواز شریف کے خطاب پر ایک کالم پڑھ کر سوچ رہا ہوں کہ وہ کس کو خطاب کر رہے ہیں۔ وہ اتنے مضطرب ہیں کہ اب دیوار کے اوپر چڑھ کے دیکھنے لگے ہیں۔ اس طرح گورنر ہاﺅس صاف نظر آتا ہے۔ امیرالمومنین حضرت عمر خطابؓ نے فرمایا کہ میرا دوست وہ ہے جو مجھے میری کوتاہیوں اور غلطیوں سے آگاہ رکھتا ہے۔ نواز شریف سوچیں کہ ان کے دوست کون ہیں اور دوست نما دشمن کون ہیں۔ وہ ہر دور میں غلط نوازیاں کرتے رہیں گے۔
وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کام ہی اپنے وزیراعظم کا دفاع کرنا ہے مگر خطاب کے حوالے سے ایک مختلف بات ان سے ہو گئی ہے۔ برطانوی وزیراعظم پہلے بھارت آئے تو پاکستان کے لئے ایسی بات کی جو بیان کرنا بھی اچھا نہیں ہے۔ اب وہ پاکستان آئے ہیں تو کہا ہے کہ جو پاکستان کا دشمن ہے وہ برطانیہ کا دشمن ہے۔ تو پھر کوئی تو ان کو یہ بھی بتائے کہ پاکستان کا دشمن کون ہے؟ پاکستان کا دشمن بھارت ہے جسے دوست بنانے کے لئے ہر پاکستانی حکمران اور سیاستدان نے سر دھڑ کی بازی لگائی اور منہ کی کھائی۔ سیلاب زدگان کے لئے شہباز شریف پانیوں میں اترنے سے بھی باز نہیں آتے۔ حمزہ شہباز نے بھی پانی میں چھلانگ لگائی۔ نواز شریف بھی متاثرین کے پاس گئے مگر بھارت کے لئے کچھ نہیں کہا جس نے یہ سیلاب بلا ایک تحفے کی طرح ہماری طرف بھیجا ہے۔ بھارت سرحدی خلاف ورزیاں بھی کر رہا ہے۔ ہمارے دریاﺅں پر ڈیم بنائے جا رہا ہے۔ ہمارے پانیوں سے بجلی بنا کے ہمیں بیچنے کی پیشکش کر رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے ارادے ٹھیک ہیں مگر بجلی کو مہنگا ہونے سے کس طرح روکا جائے گا۔ اس کے لئے نواز شریف جانتے ہیں کہ صرف کالاباغ ڈیم ضرورت ہے۔ یہ بھی بھارت نہیں بنانے دیتا۔ اس نے پاکستان کے لئے اپنے آپ کو چھوٹا امریکہ سمجھ لیا ہے۔ ایٹمی دھماکوں کے دن کو یوم تکبیر کا نام دینے والے حکمران سے گزارش ہے کہ نعرہ تکبیر لگاﺅ۔ یہ ہماری فوج کا نعرہ ہے۔
مجھے صوفی دانشور اور سکالر ادیب اشفاق احمد کا یہ جملہ نہیں بھولتا۔ مجھے نواز شریف اچھا لگتا ہے کہ اسے تقریر کرنا نہیں آتا۔ اگر نواز شریف لکھی ہوئی تقریر نہ پڑھتے اور دل سے بولتے تو کئی ایسی باتیں کر جاتے جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔ سپیچ رائٹر اور کالم نگار میں فرق مٹ گیا ہے۔
نواز شریف نے کہا کہ میں نے جان کیری کو بھی ڈرون حملے روکنے کے لئے کہا ہے۔ کہتے تو سب ہیں خبر تو یہ تھی کہ میرے کہنے پر ڈرون حملے روک دئیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا میری خواہش ہے کہ کراچی ترقی کرے۔ یہ تو محکوم بھی خواہش کرتے ہیں تو کیا حاکم اور محکوم ایک جیسے مجبور بے بس اور کمزور ہیں؟ اس ملک میں اب ظالم اور مظلوم میں فرق مٹتا جا رہا ہے تو پھر لٹیرے اور محروم بھی ایک جیسی قسمت کے مالک ہیں۔
پچھلی حکومتوں پر نواز شریف نے تنقید کی ہے۔ پچھلی حکومت ہوتی ہی اس لئے ہے کہ اگلی حکومت اپنی کوتاہیاں اس پر ڈال دے مگر یہ کیا سیاست ہے کہ پچھلی حکومت کے وزیر شذیر اور خاص خواتین و حضرات اگلی حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں تو وہی کچھ ہوتا رہتا ہے جو ہو رہا تھا۔ ہماری حکومتیں ایک جیسی سارے حکمران ایک جیسے۔ اسداللہ غالب نے لکھا ہے کہ نواز شریف نے پچھلے 14 سالوں پر تنقید کی ہے۔ ان 14 سالوں میں پانچ سال تو ان کی حکومت کے ہی ہیں۔ جو کچھ ہوتا رہا ہے ان کے سامنے ہوتا رہا ہے۔ وہ بھی کہتے تھے کہ ہمیں مسائل ورثے میں ملے ہیں۔ ہر حکمران یہی کہتا ہے۔ مسائل ورثے میں ملتے ہیں تو وسائل بھی ورثے میں ملتے ہیں۔ اگلی پچھلی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد لوگوں کو پچھلی حکومت یاد آنے لگتی ہے! وہ آ جاتی ہے تو پھر پچھلی حکومت یاد آنے لگتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...