انقلاب اور آزادی مارچ کا ’’انجام‘‘ منطقی ہو یا غیر منطقی، لیکن اس ’’سرگرمی‘‘ نے ملکی سیاست کے متعفن اور ٹھہرے ہوئے پانی میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ اقبالؒ نے کہا تھا کہ خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کر دے کہ تیرے بحر کی موجود میں اضطراب نہیں۔ اپنی قوم کیلئے اقبالؒ کی دعا بالاخر قبول ہو گئی اور اس بحر کی موجوں میں ایک اضطراب ہی نہیں، ایک انقلاب کی کیفیت بھی پیدا ہو چکی ہے اور شاید اقبالؒ کے خواب کی بھی۔ ہر چند ’’شاہِ دوراں‘‘ نے ’’حد ادب‘‘ کا ڈنکا بجا دیا ہے اور پیش قدمی پر مائل ’’رعایا‘‘ کیلئے ایک ’’حد فاضل‘‘ ہی نہیں کھینچی بلکہ ایک ’’دیوار آہن‘‘ بھی اٹھا دی ہے جو شاید کہیں ’’دیوار گریہ‘‘ کا روپ نہ اختیار کر جائے۔ حکمران قبل ازیں اہلِ لاہور سے ’’آہنی ہاتھوں‘‘ کے ساتھ نمٹ چکے ہیں جب انہوں نے سارے شہر خصوصاً جادوئی بستی ماڈل ٹائون کو کنٹینروں اور خاردار تاروں میں جکڑ کے رکھ دیا تھا۔ شہر اور اہل شہر کو بند کیا جا سکتا ہے لیکن آدرش اور خواب ہر طرح کی پکڑ، دھکڑ اور جکڑ سے آزاد ہوتے ہیں۔ ’’بعد از خرابی بسیار‘‘ کے مصداق حکمرانوں نے آزادی اور انقلاب کے علمبرداروں سے گفت و شنید کا ڈول ڈالا ہے جو بظاہر بعد از وقت اور دکھاوے کی کارروائی کی طرح ہے کہ اب تک پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکا ہے۔ اب یہ ’’زود پشیمانی‘‘ ایک ڈوبتے ہوئے فرد کی طرح ہاتھ پائوں مارنے کے مترادف ہے۔مطالبات اور معاملات کا سرا اگر شروع ہی میں پکڑ لیا جاتا تو ’’مسئلہ‘‘ سہل ہو جاتا۔ دھونس، دھاندلی اور ظلم و ستم روا رکھنے والوں کو انکے عقب میں ’’مستور‘‘ ذمہ دار کو قرار واقعی سزائیں دے دی جاتیں تو حالات یقیناً اس نہج پر نہ پہنچتے اور معاملات قابو میں رہتے لیکن کیا کہنے اپنے حاکموں کے کہ ’’بادشاہ لوگ‘‘ ہیں رعایا کی کہاں پروا کرتے ہیں۔ اپنی دھن کے پکے ہیں۔ ایک طرف ’’نو رتنوں‘‘ کے اجلاس جاری رہتے ہیں تو دوسری جانب ’’پنج پیاروں‘‘ کے۔ بے معنی مجلس آرائی اور لاحاصل مشاورت کسی نتیجے پر نہیں پہنچنے دیتی حتیٰ کہ ناراض رعایا اور لٹی پٹی خلق خدا محل سرائے کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے۔ اب دیکھئے جیت کس کی ہوتی ہے۔ دولت مند، طاقتور اور ہوشیار حکمرانوں کی یا لاچار اور بے یارومددگار عوام کی۔ اصلاً لوگ جمہوریت سے نہیں بلکہ اس شاہانہ یا بادشاہانہ ’’جمہوریت‘‘ سے عاجز آ چکے ہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی آواز کو اس آواز میں شامل کیا ہے جو اس نظام بد کیخلاف بلند ہوئی ہے۔ دیکھا جائے تو اس نظام نو کے خدوخال بے پناہ کشش کے حامل ہیں جس کیلئے لوگ نعرہ زن ہیں۔ ایک طرف تبدیلی اور آزادی کے خواہاں اگر ’’سٹیٹس کو‘‘ کو توڑنے کا عندیہ دیتے ہیں تو دوسری طرف انقلاب کے داعی ایک لبرل فلاحی عوامی ریاست کا ناک نقشہ بیان کرتے ہیں اور یہ دونوں ’’رخ‘‘ عام آدمی کیلئے بڑے خوشنما، خوشگوار اور خوش رنگ ہیں۔ دراصل لوگ ایک ایسے نظام نو کے خواہش مند ہیں جس میں کہنہ خیالی، کہنہ سالی اور کہنہ حالی کا شائبہ تک نہ ہو جس میں بلاتفریق مذہب، عقیدہ اور رنگ و نسل سب لوگ برابر کے حقوق کے مالک ہوں جس میں دولت، طاقت، رزق، وسائل اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم ہو جبکہ اس وقت یہ ’’سب کچھ‘‘ محض چند ’’آہنی ہاتھوں‘‘ تک مرتکز ہو چکا ہے۔ کالے کرتوتوں میں ملوث بدقماش ٹولہ، ذرائع پیداوار پر قابض ہے۔ ’’گروہ ہائے حاکماں‘‘ بادشاہوں اور شاہی خانوادوں کا ’’درجہ‘‘ پا چکے ہیں۔ عوام اس نظام بد سے ’’ناکوں ناک‘‘ تنگ آئے ہوئے ہیں۔ اسی کارن جب اس ’’سٹیٹس کو‘‘ کو روندنے اور تہ و بالا کرنے کی بات بلند آہنگ لہجے میں سنائی دی تو تنگ آئے ہوئے مجبور و مقہور لوگوں نے ایک نعرہ مستانہ بلند کیا اور اس استحصالی فرسودہ اور بے ہودہ نظام سے آزادی دلانے اور اس نظام کیخلاف انقلاب لانے کی آواز میں اپنی آواز کو کچھ اس طرح سے رَلا مِلا دیا کہ اب ساری قوم بلکہ اس ملک کے درودیوار تک گوش برآواز ہیں کہ
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟