دہلی کنونشن 1946ء کی قرارداد اور نظریہ پاکستان

اسلامی دانشوروں اور مؤرخین نے خوابوں، سنی سنائی باتوں اور غیر مستند حوالوں پر بھروسہ کرکے نظریہ پاکستان کے بارے میں اپنا موقف پیش کیا۔ انہوں نے مسلم لیگ کی تاریخ کی مستند دستاویزات سے صرف نظر کیا اور قیام پاکستان کے بعد سامنے آنے والے حوالوں پر انحصار کیا حالانکہ نظریہ پاکستان کو تحریک پاکستان کے بطن سے تلاش کیا جانا چاہیئے تھا۔ مؤرخین نے دہلی کنونشن 1946ء کی تاریخی قرارداد کو پوری اہمیت نہیں دی۔ دہلی کنونشن 7 تا 9 اپریل 1946ء اینگلو عریبک کالج دہلی میں منعقد ہوا جس کی صدارت قائداعظم محمد علی جناح نے کی۔ یہ کنونشن متحدہ ہندوستان میں ہونیوالے آخری انتخابات کے بعد منعقد ہوا تھا جس میں مسلمانوں نے مسلم لیگ کو بھرپور مینڈیٹ دیا تھا کہ وہ پاکستان کے قیام کے لیے اپنی جدوجہد کو نتیجہ خیز بنائے۔ تاریخ کے اس منفرد نوعیت کے کنونشن میں متحدہ ہندوستان کی 11صوبائی اسمبلیوں کے 56مسلم اراکین مرکزی اسمبلی کے 10اراکین اور کونسل آف سٹیٹ کے 13ممبروں نے شرکت کی۔ اس کنونشن کی قرارداد کے لیے ایک نمائندہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے طویل غور و خوض کے بعد ایک قرارداد تیار کی جسے حسین شہید سہروردی نے پیش کیا۔ متحدہ ہندوستان کے منتخب عوامی نمائندوں نے اسے اتفاق رائے سے منظور کرلیا۔ اس لحاظ سے یہ قرارداد تاریخی، سیاسی اور جمہوری لحاظ سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس قرارداد میں پہلی بار پاکستان کے نظریے کو جامع انداز میں پیش کیا گیا۔ دہلی قرارداد کے چند اقتباسات نذر قارئین ہیں۔
’’برصغیر ہندوستان کے دس کروڑ مسلمان ایسے دین کے پیروکار ہیں جو ان کی زندگی کے ہر شعبہ بشمول تعلیم، سماج، معیشت اور سیاست پر حاوی ہے۔ جس (دین) کا ضابطہ روحانی عقائد، ایمان اور رسم و رواج تک محدود نہیں ہے یہ دین ہندو دھرم اور فلاسفی سے متضاد ہے جس نے ہزاروں سالوں سے ذات پات کے تنگ نظر نظام کو قائم کیا جس کے نتیجے میں ہندوستان کے چھ کروڑ انسان پس ماندہ ہو کر اچھوت بن کررہ گئے ہیں اور انسانوں کے درمیان غیر فطری دیواریں حائل ہوگئی ہیں۔ اس ملک کے باشندوں کی بڑی تعداد پر سماجی اور معاشی عدم مساوات کے توہمات مسلط ہوگئے ہیں جس سے مسلمانوں، عیسائیوں اور دوسری اقلیتوں کے لیے یہ خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ معاشرتی اور معاشی حیثیت سے ایسی غلامی میں مبتلا ہو جائیں گے جس سے نجات ممکن نہیں ہوگی۔ ہندوئوں کا ذات پات کا نظام براہِ راست قومیت، مساوات، جمہوریت اور اسلام کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔‘‘[مفہوم]
’’تاریخی پس منظر، روایات، ثقافت، سماجی اور معاشی نظاموں کے اختلاف نے ایک ہندوستانی قوم کی تشکیل کو ناممکن بنا دیا ہے۔ اس کے لیے مشترک تمنائیں اور تصورات ہی موجود نہیں ہیں۔ ہزاروں سال گزرنے کے بعد بھی ہندو اور مسلمان دو بڑی قومیں ہیں۔ ہندوستان میں برطانوی پالیسی کے مطابق مغربی جمہوریت کی روشنی میں اکثریت کے اصول پر مبنی سیاسی ادارے قائم کیے گئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک قوم کی اکثریت کی رائے دوسری قوم پر اس کی مخالفت کے باوجود مسلط کردی جائے گی جیسا کہ ہندو اکثریت رکھنے والے صوبوں میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے آئین کے تحت کانگرسی حکومتوں کے ڈھائی سالہ دور سے اچھی طرح ظاہر ہوگیا ہے جب مسلمانوں پر ناقابل بیان مصائب ڈھائے گئے جس کے نتیجے میں انہیں یقین ہوگیا کہ ایکٹ اور گورنروں کے ہدایت ناموں میں نام نہاد تحفظات فضول اور بے اثر ہیں اور متحدہ وفاق میں مسلم اکثریت والے صوبوں کے مسلمانوں کا انجام بھی بہتر نہیں ہوگا اور مرکز میں ہندوئوں کی اکثریت کی وجہ سے مسلمانوں کے حقوق اور مفاد ات کا تحفظ نہیں ہوسکے گا۔‘‘ [مفہوم]
’’مسلمانوں کو یقین کامل ہے کہ مسلم ہند کو ہندوئوں کے تسلط سے بچانے کے لیے اور انہیں اپنی قابلیت کے مطابق ترقی کرنے کے مواقع فراہم کرنے کے لیے ضرورت ہے ایک آزاد اور بااختیار ریاست قائم کی جائے۔‘‘ [مفہوم] ’’پاکستان اور ہندوستان کی اقلیتوں کو اس طریقہ پر تحفظات دئیے جائیں جو آل انڈیا مسلم لیگ نے 23مارچ 1940ء کو لاہور کی قرارداد میں پیش کیے تھے۔ مرکزی عبوری حکومت میں مسلم لیگ کے تعاون اور اس کی شرکت کے لیے یہ شرط لازم ہے کہ مسلم لیگ کا پاکستان کا مطالبہ منظور کیا جائے اور بلا تاخیر نفاذ کی ذمے داری لی جائے۔‘‘ [مفہوم]
اس کنونشن میں اراکین نے صوبائی و مرکزی اسمبلی نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اُٹھایا۔ 1940ء میں مسلم لیگ کے رہنما پاکستان کے بارے میں واضح اور یکسو نہیں تھے اس لیے قرارداد لاہور میں ایک ریاست کی بجائے ’’ریاستوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا۔ 1946ء تک مسلمان اور ان کے قائدین پاکستان کے تصور اور نظریے کے بارے میں مکمل طور پر یکسو ہو چکے تھے۔ 1946ء کی متفقہ قرارداد میں ایک ریاست پاکستان کا مطالبہ کیا گیا۔ دہلی کنونشن کی بولتی قرارداد برصغیر کے مسلمانوں، انکے منتخب نمائندوں، مسلم لیگ کے لیڈروں اور قائداعظم کی اجتماعی دانش کا اظہار ہے اس لیے نظریہ پاکستان کا ادراک ، تعبیر اور تشریح اس تاریخی اور جامع قرارداد کی روشنی میں کی جانی چاہیئے۔ اس قرارداد میں دین اسلام کو مکمل ضابطۂ حیات قراردیا گیا ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ نئی ریاست پاکستان کے تعلیمی، سماجی، معاشی اور سیاسی نظام کو اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق تشکیل دیا جائے گا۔ قائداعظم نے اپنے خطبات میں اسلام کو اس کے آئیڈیلز یعنی اسلام کے اعلیٰ اور مثالی اصولوں کے ساتھ جوڑا جبکہ دانشور اسلام کی درست تعبیر اور تشریح سے قاصر رہے جس کے نتیجے میں اسلام محض جہاد کے ساتھ جڑکر رہ گیا۔ قرارداد میں ذات پات کے نظام کو مسترد کرکے اسلامی مساوات کے اصول کو اُجاگر کیا گیا اور پاکستان کو اسی مرکزی اصول کے تحت چلانے کا اعلان کیا گیا۔ سماجی و معاشی انصاف، قومیت، جمہوریت، مساوات اور اسلام کے سنہری اصول نظریۂ پاکستان کے اساسی اصول قرار پائے اور ایک پاکستانی قوم کی تشکیل کو پاکستان کا نصب العین قراردیا گیا۔
قرارداد دہلی کے مطابق ایک آزاد اور بااختیار ریاست کا قیام اس لیے لازم ٹھہرا تاکہ مسلمان اور پاکستان کے غیر مسلم شہری اپنی قابلیت کے مطابق ترقی کرسکیں۔ اگر آج کروڑوں شہریوں کو اپنی قابلیت کے مطابق ترقی کرنے کے مساوی مواقع حاصل نہیں ہیں تو اسے نظریہ پاکستان کی کھلی خلاف ورزی تصور کیا جانا چاہیئے۔ قرارداد دہلی میں مسلم لیگ نے مغربی پارلیمانی جمہوریت کو اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ اس سیاسی نظام میں ہندو اپنی اکثریت کی بنیاد پر مکمل بالادستی اختیار کرلیتے۔ گویا یہ اقرار کیا گیا کہ پاکستان میں ایسا جمہوری و سیاسی نظام رائج کیا جائے گا جس میں اکثریت کی بالادستی نہ ہو اور جمہوریت ہرحوالے سے شراکتی اور نمائندہ ہو۔ قرارداد میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا خصوصی ذکر کیا گیا۔ نظریہ پاکستان کی تشریح دہلی قرارداد کی روشنی میں اس لیے ضروری ہے کہ یہ قرارداد اتفاق رائے سے منظور ہوئی۔ اس میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ دہلی کنونشن آئینی اور قانونی تھا جو مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کی منظوری سے بلایا گیا تھا۔ پاکستان کے نوجوان دہلی کنونشن کی قرارداد میں بیان کیے گئے نظریۂ پاکستان کی روشنی میں پاکستان کی تشکیل نو کے لیے جدوجہد کریں اور دانشور اس قرارداد کو اہمیت دیں۔ پاکستانی قوم کو اسلام کے مثالی اصولوں کے مطابق جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست کی تشکیل پر متفق ہوجانا چاہیئے۔ [قرارداد کے اُردو متن کے لیے آزاد بن حیدر کی کتاب تاریخ آل انڈیا مسلم لیگ صفحہ 843 اور انگریزی متن کے لیے بیگم شائستہ سہروردی اکرام اللہ کی کتاب حسین شہید سہروردی مطبوعہ آکسفورڈ کا صفحہ 131ملاحظہ فرمائیے]۔

ای پیپر دی نیشن