”آئی ایم ایف کا اعلامیہ اور وزیر خزانہ کی منطق“

عدالت عظمیٰ نے جس روز ایئرپورٹس پر مسافروں اور تارکین وطن کو سہولتوں کی عدم دستیابی کے حوالے سے ایک مقدمہ کی سماعت کے دوران قرار دیا کہ یہ قابل شرم معاملہ ہے کہ ہر دو سال میں چار ارب ڈالر ہمارے کشکول میں ڈالنے والوں کی آﺅ بھگت کی جاری ہے لیکن 72 ارب بھیجنے والے تارکین وطن کا کوئی پرسان حال نہیں، اسکے اگلے روز عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان دبئی میں ہونے والے مذاکرات کا اعلامیہ جاری ہوا جس میں شرح نمو میں کمی اور بجٹ خسارے پر اظہار تشویش کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافہ ہو سکتا ہے، پاکستان قرض کے اہداف بھی حاصل نہیں کر سکا مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈالر جبکہ آئی ایم ایف کی جانب سے مشن چیف ہیرالڈ فنگر نے کی، مذاکرات کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اعلامیہ کے بالکل الٹ باتیں کیں ان کا یہ کہنا کس قدرمضحکہ خیز ہے کہ حکومت کی پالیسیوں سے ملک کی معاشی صورت حال میں بہتری آئی۔ آئی ایم ایف کا اعلامیہ ہے کہ پاکستان کی برآمدات میں کمی ہوئی مگر وفاقی وزیر خزانہ کا فرمانا ہے کہ بیرونی تجارت میں بہتری آئی، اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ملک میں مہنگائی کی شرح میں دو سال کے دوران نمایاں کمی ہوئی اور ضروریات زندگی کی مہنگائی 12سال کی کم ترین سطح پر آ گئی یوں لگتا ہے کہ جیسے آئی ایم ایف کے حکام کے ساتھ مذاکرات کا نشہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ جو اس طرح سر چڑھ کر بولتا ہے کہ انسان بال تکلف ان باتوں کو بڑے طمطراق کےساتھ اپنی زبان سے ادا کرتے چلے جاتے ہیں، جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

خدا معلوم وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کون سی ایسی حکومتی پالیسیوں کی بات کررہے ہیں جن سے ملک کی معاشی حالت بہتری کی طرف گامزن ہوئی ہے، پاکستان کے عوام کو معاشی طور پر خودکفیل کرنے انہیں ضروریات زندگی کی مہنگائی سے نجات دلانے، انہیں آسانی کے ساتھ دو وقت کی روٹی کمانے اور اپنے زیر کفالت اہل خانہ کو کھلانے میں آسانیاں پیدا کرنے کی کسی ایک حکومتی پالیسی کا ڈھونڈے سے سراغ تک نہیں ملتا، معاشی بہتری سے ملک کے وہ چند ہزار خاندان ضرور ہمکنار ہوئے ہیں جو ارباب اقتدار کے حواریوں، حاشیہ نشینوں اور جی حضوریوں میں شامل ہیں ایسے لوگوں میں وہ بھی شامل ہیں جو ایوان اقتدار کی غلام گردشوں تک رسائی رکھتے ہیں، اس پر طرہ یہ کہ ملک کی تمام صوبائی اسمبلیوں ، قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان بھی حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمیشہ ہمیشہ کےلئے اقتصادی تفکرات سے نجات حاصل کر چکے ہیں، اس قسم کی جمہوریت تو ان لوگوں کو راس آئی ہے جنہیں جمہوریت کی آڑ میں بھاری رقوم کی تنخواہیں، انکے اہل خانہ کیلئے مفت طبی امداد، ٹرانسپورٹ کی سہولتیں پھر وزیر، مشیر اور نوازشات کی مد میں معاونین خصوصی ہونے کی صورت میں بھاری مشاہیر سمیت مفت رہائش، مفت سوئی گیس، مفت بجلی، مفت پانی اور مفت ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کے علاوہ سکیورٹی کے لوازمات بھی اس خزانہ عامرہ سے مہیا ہوتے ہیں، جس کا ایک ایک روپیہ ملک کے فاقہ کش اور مفلس و قلاش کروڑوں لوگوں کے ٹیکسوں سے جمع ہوتا ہے۔
یہ ایک المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جمہوریت کے نام پر اپنے خاندان کیلئے مالی آسودگی کی راہیں ہموار کرنے والوں کو کبھی اس ”جمہور“ کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کا خیال تک نہیں آیا۔حزب اختلاف کا دم بھرنے والی ”فرینڈلی اور غیر فرینڈلی“ اپوزیشن جماعتوں اور ان کی قیادت کو بھی عوام کے اس دکھ کا احساس نہیں جو ضروریات زندگی کی ریکارڈ مہنگائی کی شکل میں ناسور کی صورت اختیار کر چکاہے، پاکستان کے کروڑوں عوام اس دکھ کا مداوا چاہتے ہیں مگر اپوزیشن جماعتیں اپنے اپنے مخصوص مفادات کے تحت قوم ووطن کے اس اہم ترین مسئلہ کے حل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کررہیں، یہی وجہ ہے کہ ملک بھر کے کروڑوں فاقہ کش اور غربت کے مارے لوگ تمام سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں سے مایوس اور بیزار ہو چکے ہیں، عوام کی مایوسی، بددلی اور بے بسی کے ماحول اور اپوزیشن جماعتوں کی عوامی مسائل سے عدم دلچسپی ہی کا نتیجہ ہے کہ ارباب حکومت عوام کے معاشی مسائل حل کرنے کی بجائے اورنج لائن اور میٹرو ٹرینیں چلانے کے منصوبوں کی نوید دیتے رہتے ہیں جبکہ ایسے اربوں روپوں کے شاہانہ منصوبوں سے غریب عوام کو کوئی دلچسپی نہیں ہو سکتی، ارباب حکومت کی ” گڈ گورننس“ یا کارکردگی کی حالت یہ ہے کہ پنجاب میں سات برس سے متواتر برسراقتدار رہنے کے بعد انہیں اب یہ معلوم ہوا ہے کہ صوبے میں انکی ناک کے نیچے جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریاں سرگرم عمل ہیں اور کسی لائسنس کے بغیر وہ ادویات تیار کررہی ہیں یہ پہلے ہی قتل گاہیں تھیں اب وزیراعلیٰ کے کہنے سے قتل گاہیں نہیں بن گئیں؟ پنجاب میں ضروریات زندگی میں ملاوٹ کا کاروبار نیا نہیں برسہا برس سے یہ گھناﺅنا کاروبار جاری ہے مگر ”گڈ گورننس“ کی دعویدار صوبائی حکومت کو سات برسوں کے بعد اب اس سے آگاہی ہوئی ہے اور وزیراعلیٰ نے بڑے ٹھسے سے بیان جاری کیا ہے کہ خوراک کے نام پر زہر کی تیاری اور فروخت کا دھندہ بند کرائیں گے۔ بلالائسنس فیکٹریوں میں جعلی ادویات کی تیاری اور خوراک میں ملاوٹ ہونے کے گھناﺅنے جرم کا علم وزیراعلیٰ پنجاب کو سات برس بعد ہوا صوبے کے کروڑوں عوام گزشتہ کئی برسوں سے کمر توڑ مہنگائی کی جو دہائی دیتے دیتے نڈھال ہو چکے ہیں، عوام کی یہ دہائی وزیراعلیٰ پنجاب کے کانوں تک کب پہنچے گی؟ یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ تاہم اگر کبھی انکے کانوں تک عوام کی چیخ وپکار پہنچے تو انہیں اس حقیقت کا ادراک ضرور ہونا چاہیے کہ عوام کی ضروریات زندگی آٹا، چاول، دالوں، سبزیوں، گھی، بکرے گائے کا گوشت، برائلر گوشت، کپڑا، چینی وغیرہ سے عبارت ہے اور ان میں بیشتر اشیاءکی فیکٹریاں، کارخانے اور پیداواری مراکز ارباب اختیار اور اسی قبیل کے خاندانوں کی ملکیت ہیں، جس کے باعث ان کی قیمتوں کو اعتدال پر لانے میں حکومت کو کسی قسم کی مشکل پیش نہیں آ سکتی۔ مگر عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کیلئے نیک نیت ہونا شرط ہے۔
خط غربت سے نیچے کی زندگی گزارنے والوں کی زندگی میں آسانیاں آئیں گی تو کہا جائے گا کہ ملک کی معاشی حالت میں بہتری آئی ہے۔ ورنہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے اس قسم کے دعوے محض سراب اور حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہوں گے۔

ای پیپر دی نیشن