مجرموں کے محافظ و معاون

سکول سے گھر آتے ہوئے میرے قدم اچانک سکول سے دائیں طرف اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھے موچی کے پاس رک گئے اور میں اس کو دیکھنے لگی کہ وہ کیا کر رہا ہے۔ موچی نے اپنے نیچے بچھی چٹائی کو ایک کونے سے ہوا میں بلند کیا، اسکے نیچے سے ایک سفید پیکٹ نکالا جس میں سفید رنگ کا پاوڈر صاف دکھائی دے رہا تھا اور اپنے پاس بیٹھے ایک شخص کو تھما دیا۔ اس نے پیسے موچی کی ہتھیلی پر رکھے اور تیزی سے بھیڑ میں گم ہو گیا۔ گھر والوں سے ذکر کرنے پر کسی کو نہ بتانے کی تاکید کی گئی اور اپنے کام سے کام رکھنے کو بھی کہا گیا۔ لیکن میرا بہت دل چاہتا تھا کہ میں پولیس کو بتاﺅں یہ موچی نہیں ہیروئن فروش ہے۔ ابھی موچی والا واقعہ تازہ ہی تھا کہ ہم عید منانے نانی کے پاس جا رہے تھے۔ بس ابھی مسافروں کا انتظار میں کھڑی تھی۔ میری نظر ایک سبز چولے میں ملبوس انتہائی بد حا ل فقیر پر پڑی۔ میری نظریں اس فقیر کا تعاقب کرنے لگیں۔ وہ لوگوں کو گالیاں دے رہا تھا اور لوگ اسے خیرات دے رہے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ فقیر ایک پان کی دکان پر جا کر کھڑا ہو گیا۔اس نے ادھر ادھر نظر دوڑائی اور جلدی سے دکاندار کے سامنے سفید اور کالے رنگ کی تھیلیاں رکھ دیں۔ دکاندار نے تیزی سے ان تھیلیوں کو نیچے کہیں درازوں میں گم کر دیا۔ اس نے پیسے لیے، سگریٹ سلگائی اور اپنے گالیوں والے کاروبار پر واپس آ گیا۔ یہ سب اتنی تیزی سے ہوا کہ اس بھیڑ میں کوئی بھی نہیں دیکھ پایا ہو گا۔ یہ کوئی اپنی نوعیت کے انوکھے واقعے نہیں ہیں۔ بچپن میں یہ دل ضرور چاہتا تھا کہ پولیس ان لوگوں کو پکڑے اور میں پولیس تک رسائی کے پلان بنایا کرتی تھی لیکن اب جا کر یہ حقیقت کھلی ہے کہ کون سی پولیس؟ پاکستانی پولیس؟ اگر اس نے ان مجرموں کو پکڑنا ہوتا تو کیا وہ اپنے علاقے کے موچی سے بے خبر ہوتی جس کی خبر ایک سکول جانیوالی بچی کو بھی ہو چکی تھی؟ کیا پولیس بس اسٹاپ پر ہیروئن اور افیم بیچتے ہوئے اس مجذوب اور بدحال فقیر سے بھی لا علم تھی۔ اور وہ شخص جس نے پولیس کو ناکے پر بھاری رقم ادا کی اور کہا سرکار جانے دیں آئندہ یہ غلطی نہیں ہوگی اور پولیس نے رحم دلی کا ثبوت دیتے ہوئے تقریباً ایک کلو ہیروئن کو جانے دیا؟ اور مجرم کو ایک موقع اور دیا سدھرنے کا۔ کیا ہم اس پولیس سے یہ توقع کرتے ہیں کہ یہ جرائم پر قابو پائے گی اور یہ مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائے گی۔ اس وقت میں اگر پولیس کو اطلاع کرتی بھی اول تو ایک بچی سمجھ کر میری بات کو مذاق میں اڑا دیا جاتا، دوسرا اگر خوش قسمتی سے سن بھی لی جاتی تو سو بہانوں سے کیس رجسٹر نہ کیا جاتا۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ جہاں ہم بیرونی قوتوں کے ہاتھوں مسائل کا شکار ہیں وہاں ہمارے اپنے انھی قوتوں کہے مقاصد کی تکمیل کر کے ملک کو تباہی کے دہانے پر لیجانے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ وہ ا دارہ جس کے ذمہ لوگوں کی مال، جان اور عزت کی حفاظت کرنا ہے وہ ہی اپنے لوگوں کو لوٹنے کے در پے ہے۔مہذب معاشروں میں اگر آپ اپنے ہمسائے کے کتے کے بھونکنے کی وجہ سے ڈسٹرب ہوتے ہیں تو قانونی طور پر پولیس کو اطلاع کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ پولیسفوراً آکر آپکی اس تکلیف کو رفع کرنے پر ہمسائے کو مجبور کر دیگی۔
اگر آپ پرندے رکھتے ہیں اور آپکا ہمسایہ اس سے تنگ ہوتا ہے تو پولیس کو کال کر کہ کہتا ہے کہ اس شخص نے پرندے رکھے اور میری اجازت نہیں لی یہ مجھے تنگ کرتے ہیں تو پولیس آپ کو وارننگ دیگی کہ اپنے پرندوں کا بندوبست کریں یا آپس میں صلح صفائی سے معاملات طے کریں لیکن یہاں تو چوری، ڈکیتی اور قتل کے کئی کئی گھنٹوں بعد پولیس صرف خانہ پری کرنے آتی ہے۔ اگر ہم اپنی پولیس سے کسی دکاندار کی دی گئی ناقص چیز یا ہمسائے کی طرف سے پہنچنے والی تکلیف کی شکایت کرینگے تو پولیس نہ صرف ہمارا مذاق اڑائے گی کہ یہ ہمارے فرائض میں شامل نہیں۔ ہمارے ہاں پولیس نہ تو عوام کی سنتی ہے اور نہ ہی اب عوام پولیس کے پاس جاتی ہے۔ ہزاروں ایسے واقعات ہیں جو رجسٹرڈ ہی نہیں کروائے جاتے اس لیے کہ مرنے والا تو مر گیا اب ساری عمر مقدمات کون جھیلے۔ لٹنے والا لٹ گیا اب رہی سہی پونجی کون لٹائے۔ ایک بچی کی عزت گئی تو باقی بچیوں کی عزت داو پر کیوں لگائیں اس لیے لوگ قہر درویش بر جان درویش کے مطابق صبر کر کے گھر بیٹھ جاتے ہیں۔ بہت سے ایسے معاملات ہیں جو عدالتوں میں جانے سے پہلے پولیس خود حل کرو اسکتی ہے۔ ترقی یافتہ مہذب معاشروں میں کوئی بھی کیس ایسا نہیں ہوتا جسے عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج یا ختم کر دیا جائے۔ پولیس خود ثبوت تلاش کرتی ہے اور بغیر کسی دباﺅ ئ کے عدالت میں پیش کرتی ہے۔ وہاں بعض معاملات عدم ثبوت کے باوجود کئی سالوں بعد پولیس نے خود حل کئے۔ وہ فائلوں کی گرد کا شکار نہیں ہوتے۔ نہ ہی عوام کو ان کیسز کا پیچھا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہاں ثبوت اور گواہ بھی عوام خود ہی اکھٹا کرتی ہے ۔ وکیلوں کو بھاری فیس بھی دیتی ہے ساری عمر عدالتوں کے دھکے کھاتی ہے اور پولیس ثبوت مٹانے اور گواہ بٹھانے کا کام کرتی اور حق الخدمت وصول کرتی ہے۔ غریب اور نادار لوگوں کو کبھی تھانوں سے انصاف میسر نہیں آتا چنانچہ مجرم مزید شیر ہو جاتے ہیں۔جب تک ہماری پولیس اپنے فرائض دیانتداری سے ادا نہیں کرتی ہمارے معاشرے سے جرائم کا قلع قمع نہیں کیا جا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن