رہائشی علاقوں میں بلند و بالا عمارتوں کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے: جسٹس فائز

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے اسلام آباد میں غیر ملکی سفارتخانوں ودیگر بااثر افراد کی جانب سے کھڑی کی گئیں رکاوٹوں اور رہائشی علاقوں کے کمرشل استعمال سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت میں عدالت نے سی ڈی اے قوانین، قواعد و ضوابط پالیسی، اعداد و شمار کے بارے میں فریقین کو میٹنگ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اسکی رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ سماعت جمعرات 27اگست تک ملتوی کر دی گئی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب شاپنگ اور دیگر ضرورےات پوری کرنے کے لیے مارکیٹس موجود ہیں تو پھر رہائشی علاقوں میں کارروباری پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی اجازت دیکر انہیں ”منی کمرشل ایرےاز“ میں کیوں تبدیل کےا جا رہا ہے، اس کا کےا مقصد اور وجوہات ہیں؟ ان کا مقصد روپے کمانا ہے؟ سسروسز فراہم کرنا؟ مدد امداد اور فلاح ہے؟ کمرشل ازم کو فوری طورپر روک دینا چاہئے، رہائشی علاقوں میں بلند و بالا عمارتوں کی اجازت کس طرح دی جا سکتی ہے۔ سی ڈی اے کی جانب سے عدالت کو بتاےا گےا کہ پراپرٹی کے غیر قانونی استعمال اور تجاوزات سے متعلق نوٹسز جاری کئے ہیں۔ عدالت نے استفسار کےا کہ پتہ ہونا چاہئے کون سا گرے ایرےا ہے اور کہاںاجازت ہے، سی ڈی اے کی جانب سے عدالت کو بتاےا کہ پراپرٹی کا 25 فیصد حصہ کاروباری سرگرمیوں کے لئے استعمال کےا جاسکتا ہے، اس میں بھی سکول کالجز، ریستوران، کلینک، سافٹ آفسز بنانے کی اجازت وہ بھی گراﺅنڈ فلور پر ہے۔ یہ زےادہ تر دو کمرے بنتے ہیں، دنےا بھر میں ایسا ہوتا ہے کہ ایمرجنسی میں وہاں جاےا جا سکتا ہے۔ لاہور میں ایسا ہو رہا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کھانے، وکالت، پراپرٹی آفس میں کےا ایمرجنسی والی بات ہے، بلوایرےاز (کاروباری) سائٹس موجود ہیں۔ اس بات کے پیچھے کوئی منطق ہونی چاہئے کہ کس طرح 25 فی صد ایریا کی نشاندہی ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں ٹاﺅن بلڈنگ ہوتی ہے جس میں کاروباری سرگرمیاں اور پیشہ ورانہ سرگرمیاں ہوتی ہیں، پورے شہر کو کاروباری بنانے سے لوگوں کا سکون غارت ہو جائے گا اور بہت سی پریشانیاں پیدا ہوں گی، ہرجگہ کو لاہور نہ بنائیں۔
ازخود نوٹس

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...