پولیس جان بوجھ کر تفتیش میں حقائق گول کر جاتی ہے: سپریم کورٹ

لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے مقدمات کی حقیقت سامنے نہیں آتی۔ پولیس والے جان بوجھ کر اصل حقائق کو تفتیش میں گول کر جاتے ہیں۔ عدالت نے دھوکہ دہی سے گھر بلا کر نوجوان کو قتل کرنے والے ملزم کی درخواست ضمانت خارج کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ ساہیوال کو حکم دیا ہے کہ کیس کا ٹرائل چھ ماہ میں مکمل کیا جائے۔ ملزم کے وکیل نے مو¿قف اختیار کیا کہ تھانہ فرید ٹاﺅن ساہیوال میں نامعلوم افراد کے خلاف نوجوان محمد سعید کو قتل کرنے کا مقدمہ درج ہے۔ مقتول بھائی اور مقدمے کے مدعی محمد طفیل نے عصمت اللہ، اس کی بیوی نسیم اختر اور سالی سلمیٰ کنول کو مقدمے میں نامزد کر دیا۔ دونوں خواتین کی ضمانت ہو چکی ہے۔ پولیس کے پاس وقوعہ کی کوئی ٹھوس شہادت نہیں ہے، پراسیکیوشن کی طرف سے پولیس ریکارڈ پیش کرتے ہوئے بتایا گیا کہ تین ملزموں کو آزاد گواہوں نے شناخت کیا، آزاد گواہوں کی بنیاد پر ہی انہیں مقدمے میں نامزد کیا گیا، پولیس کی تفتیش میں ملزم عصمت اللہ گنہگار ہے، سعید کو دھوکے سے گھر بلا کر قتل کرکے نعش قریبی ہاﺅسنگ سوسائٹی میں پھینک دی گئی۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پولیس اس کیس میں اصل حقائق سامنے نہیں لائی، ڈاکٹر نے بھی میڈیکل او رپوسٹ مارٹم رپورٹ میں واضح طور پر نہیں لکھا کہ موت کی وجہ کیا ہے، پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے مقدمات کی اصلیت سامنے نہیں آتی۔

سپریم کورٹ/پولیس

ای پیپر دی نیشن