کراچی سے خوف کے سائے ختم۔۔۔۔۔۔ شہر قائد میں جشن آزادی کی نئی تاریخ رقم

الطاف احمد خان مجاہد
پاکستان کا 69واں یوم آزادی تزک و احتشام سے منایا گیا۔اس بار پورے ملک میں برسات و سیلاب کی تباہ کاریوں کے باوجود جوش و خروش دیدنی تھا۔ بالخصوص کراچی میں کہ جہاں کراچی آپریشن اور متحدہ کے اسمبلیوں سے استعفے کے بعد صورت حال بھی کچھ کشیدہ تھی لیکن شہر قائد میں جشن آزادی کی نئی تاریخ رقم ہوئی اور بلا مبالغہ 14,13 اگست کی درمیانی شب سے اگلے روز اور رات کو لاکھوں افراد سڑکوں پر تھے۔ ایم اے جناح روڈ نمائش چورنگی پر مزار قائد اور اطراف کی گلیاں، سڑکیں، چورنگیاں سب ملی نغموں سے گونج رہی تھیں سبز ہلالی پرچموں کی بہار میں قمقمے روشن تھے اور گھروں، کاروباری عمارتوں، شاہراہوں پر چراغاں اور سجاوٹ لوگوں کو اپنی سمت متوجہ کر رہی تھی مزار قائد پر تو تل دھرنے کی جگہ نہ تھی ہزاروں افراد تو یننی ہٹی، بسیلہ، جیل چورنگی، اللہ چورنگی اور سیونتھ ڈے ہسپتال چوراہے پر ہی سے واپس چلے گئے کہ آگے جانا اور بابائے قوم کے مزار پر فاتحہ خوانی جوئے شیر لانے کے مترادف تھی ۔کراچی میں تقریبات کا آغاز 21توپوں کی سلامی سے ہوا مزار قائد پر پرچم کشائی کی تقریب ہوئی۔ گورنر سندھ عشرت العباد خان، وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ اور صوبائی وزراءنے مزار قائد پر حاضری دی، پھول چڑھائے، فاتحہ خوانی کی ۔ قبل ازیں صوبائی وزیر بلدیات سید ناصر حسین شاہ نے رات 12 بجے ایڈمنسٹریٹر بلدیہ شرقی سید صلاح الدین و دیگر کے ہمراہ قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار پر کیک کاٹا اور جشن آزادی پاکستان کا آغاز کیا۔
کراچی میں جشن آزادی تو بھرپور انداز سے منایا ہی گیا کہ اس بار اس کا خصوصی اہتمام تھا لیکن کراچی کے شہریوں کا جوش و خروش کچھ زیادہ دیدنی خریداری کے حوالے سے رہا۔ کراچی تاجر اتحاد کے سربراہ عتیق میر کا کہنا تھا کہ اس بار جشن آزادی کے موقع پر کراچی میں شہریوں نے پانچ ارب روپے کی خریداری کی اور اس برس قومی پرچموں، جھنڈیوں، بیجز، ہینڈ بینڈ، قومی پرچم کے رنگ والی سبز و سفید چوڑیوں قومی پرچم والی ٹوپیوں اور ٹی شرٹس و دیگر کی مانگ اتنی تھی کہ جا بجا سڑک کنارے ہزاروں مقامات پر یہ اشیاءفروخت ہو رہی تھیں اور پورے شہر میں خواتین، بچے، نوجوان اور ضعیف العمرافراد گھروں سے نکل آئے ۔من چلے موٹر سائیکلیں دوڑا رہے تھے سمندر میں پاکستان زندہ باد کے عنوان سے کشتیوں کی ریلی نکالی گئی جس کا اہتمام مسلم لیگ ق نے کیا تھا ۔سابق وفاقی وزیر اور المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی کے روح رواں الحاج محمد حنیف حاجی طیب نے تجدید عہد وفا کے اجتماع سے خطاب کیا اور حصول پاکستان کے جذبہ کو پھر سے اجاگر کرنے پر زور دیا۔ مزار قائد پر گرل گائیڈز نے سینکڑوں فٹ طویل پاکستانی پرچم کی نمائش کی اور شہر کے بعض مقامات پر لوگوں نے قومی پرچم کے ساتھ پاور کائٹ اڑانے کے مظاہرے بھی کیے اسی طرح متعدد مقامات پر آتش بازی بھی ہوئی اور رنگا رنگ روشنیوں نے قوس و قزح کے وہ منظر پیش کیے کہ ان کی دلکشی، دیدہ ذیبی اور رعنائی نے حاضرین کا دل موہ لیا۔ عثمان پبلک سکول میں یوم آزادی کی تقریبات کا آغاز 2 رکعت نماز شکرانہ سے ہوا۔ رینجرز کے جوانوں نے ایم اے جناح روڈ پر قومی پرچم تقسیم کیے مساجد میں ملکی سلامتی کیلئے خصوصی دعائیں مانگی گئیں اور شہر میں درجنوں مقامات پر بچوں اور بچیوں نے قومی پرچم کی فیس پینٹنگ کرائی اور ہزاروں بچے اپنے سرپرستوں کے ہمراہ پاکستانی پرچم کے مختلف ڈیزائنوں والے ملبوسات پہنے اور اپنی گاڑیوں کو سبز و سفید رنگوں سے سجائے سڑکوں پر گشت کرتے رہے۔ بعض مقامات پر ٹریفک کا بہاﺅ اتنا تھا کہ بد ترین ٹریفک جام کے مناظر بھی دیکھے گئے بالخصوص گرومندر چورنگی،اللہ چورنگی، جیل چورنگی، شہید ملت کراسنگ، بسیلہ، تین ہٹی اور سیونتھ ڈے کارنر سے چند منٹ کی مسافت پونے گھنٹے میں طے ہو رہی تھی۔ریڈیوپاکستان کی یونائیٹڈ سٹاف آرگنائزیشن سی بی اے یونین کے تحت کراچی سینٹر میں جشن آزادی پر کیک کاٹنے کی تقریب منعقد ہوئی۔ 14اگست کو کراچی کی سڑکیں ہی نہیں اندرون صوبہ چھوٹے بڑے شہر، قصبے اور گاﺅں دیہات جیوے جیوے پاکستان کے نعروں سے گونج رہے تھے سینکڑوں ہزاروں مقامات پر سماجی، ثقافتی اور دینی و سیاسی جماعتوں نے کیمپ لگائے تھے جن پر نصب ڈیجیٹل ساﺅنڈ سسٹم سے ملی نغمے نشر ہو رہے تھے اور نوجونوں کی ٹولیاں بھنگڑے ڈال رہی تھی ان کیمپوں سے مٹھائی بھی تقسیم ہو رہی تھی صوبے بھر کے ہزاروں تعلیمی اداروں میں اس موقع پر خصوصی تقریبات کا بندوبست تھا اور یہاں کیک بھی کاٹے گئے۔
پاکستان گزشتہ ایک عشرے سے دہشت گردی کا شکار ہے اور اسی طرح کراچی بھی کئی برسوں سے بدامنی اور مشکلات سے دو چار رہا لیکن اب حالات بہتری کی سمت جا رہے ہیں اس لیے آزادی کی نعمت پر اظہار تشکر روایتی انداز سے ہٹ کر کیا گیا ۔ لاڑکانہ میں رینجرز اور سول سوسائٹی نے مل کر ریلی نکالی،ہسپتالوں میں مریضوں اور جیلوں کے قیدیوں میں پھل اور مٹھایاں تقسیم کی گئیں ۔حیدر آباد میں آزادی فیسٹیول کا اہتمام تھا سکھر میں پرچم کشائی کے اجتماعات ہوئے اور ایسے ہی مظاہر خیر پور، لاڑکانہ، ٹھٹھہ، میرپور خاص اور نواب شاہ میں دیکھے گئے۔ جہاں شہریوں نے جشن آزادی کی نئی تاریخ رقم کی۔ نوجوانوں کا جذبہ دیکھ کر بزرگ عش عش کر اٹھے اور اس جوش وخروش کو دیکھنے والوں نے تسلیم کیا یہ گہما گہمی ماضی قریب میں کبھی نہیں دیکھی گئی اور سچ یہ ہے کہ کراچی کے باسیوں نے تو مدتوں بعد جشن آزادی بھرپور طریقے سے منایا۔ یوم آزادی پر جگمگاتے چہرے، چمکتی آنکھیں اور دمکتے عارض اس بات کا ثبوت تھے کہ شہر نگاراں کی روشنیوں اور رونقوں کی بحالی کا عمل شروع ہو گیا ہے ۔

ای پیپر دی نیشن