ان دنوں بچوں کے اغوا اور جنسی جرائم کی خبروں نے والدین کا سکھ چین چھین رکھا ہے۔ چھٹیاں ختم ہونےکے باوجود سکولوں میں حاضری نہ ہونےکے برابر ہے۔ والدین گہری سوچ میں ڈوبے ہیں کہ وہ بچوں کو کیسے اور کس کےساتھ سکول بجھوائیں اور کون انہیں چھٹی کے بعد بحفاظت واپس لائےگا۔ گلیاں اور پارک ویران ہو چکے ہیں جہاں پہلے بچے آزادی کےساتھ کھیلا کرتے تھے۔ سوشل میڈیا پر گزشتہ دنوں ایک پوسٹ دیکھی جس میں ماں اپنی تین بچیوں کو لے کر پیدل چلتے ہوئے گھر کی جانب آرہی تھی۔ اچانک ایک بھاری بھرکم شخص نے ایک بچی کو اٹھا کر ویگن میں ڈالا اور ویگن تیز دوڑا لی۔ اولاد کی محبت میں ڈوبی ہوئی ماں دوڑی لیکن وہ ویگن تک کیسے پہنچ سکتی تھی اور اگر پہنچ بھی جاتی تو وہ درندہ صفت انسانوں سے بچی کو کیسے بچا سکتی تھی۔ اسیطرح ایک بچے کا چہرہ بالکل صحیح لیکن دل ¾ گردے ¾ پھیپھڑے سمیت تمام قیمتی اعضا کو قتل کر کے نکال لیا گیا۔ ایک اور تصویر جس میں چند بچوں کے ہاتھ¾ پاﺅںکو نہایت ظالمانہ انداز میں باندھ رکھا تھا۔ یہ تصویریں دیکھ کر کوئی پتھر دل انسان ہی ہوگا جو آنسو بہانے کے بغیر رہ جائے۔ افسوس کہ اغواءکنندگان سے نہ چھوٹے محفوظ ہیں اور نہ بڑے۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جھوٹی رپورٹ پیش کر کے وزیر اعلی پنجاب کومطمئن کر دیا گیا کسی نے سچ کہا ہے کہ جسکو آگ لگتی ہے تپش بھی وہی محسوس کرتا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ¾ سید یوسف رضا گیلانی سے پوچھیں بیٹے کی جدائی میں گزرے ہوئے لمحات کس قدر کرب ناک تھے۔ عدم تحفظ کی فضا کچھ اسطرح ہم پر طاری ہو چکی ہے کہ ہر شخص مشکوک اور تشویش کا شکار نظر آتا ہے۔ اسکے باوجود کہ میرے بچے نہ تو رات کو گھر سے نکلتے ہیں اور نہ ہی بتائے بغیر کہیں جاتے ہیں ایک شام میرا بیٹا (زاہد) بتائے بغیر گھر سے نکل گیا۔ جب وہ رات گیارہ بجے تک واپس نہ آیا تو تشویش کی لہر میری ریڑھ کی ہڈی تک پہنچنے لگی۔ کوشش کے باوجود مجھے نیند نہیں آرہی تھی ¾ ذہن میں اٹھنے وا لے وسوسے مجھے بے چین کر رہے تھے ¾ رات ساڑھے گیارہ بجے بیٹا گھر آیا تب دل کو سکون ملا۔ یہ ایک باپ کے احساسات تھے جبکہ ماں کے جذبات کو ماپنے کےلئے دنیا میں کوئی پیمانہ نہیں بنا۔ جب تک سزا اور جزا کا نظام ٹھیک نہیں ہوتا اور پولیس اپنی ذمہ داریوں کو صحیح انداز سے انجام نہیںدیتی۔ اس وقت تک خوف و ہراس کی فضا ختم نہیں ہو سکتی جس نے والدین اور بچوں کو یکساں پریشان کر رکھا ہے۔ بچپن میں سنا کرتے تھے کہ بچوں کو اغواءکر کے بنوں کوہاٹ کے بیگار کیمپوں میں لے جایا جاتا ہے دور جدید میں چند درندہ صفت لوگوں کے لالچ کی وجہ سے جنسی جرائم اور انسانی اعضا کی سمگلنگ کا مکروہ دھندہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہماری پولیس سخت ترین نااہل ¾ سست اور رشوت خور ہے اگر عوام کسی جرائم پیشہ شخص کو پکڑ کر بھی پولیس کے حوالے کرے تب بھی وہ شرافت کا سر ٹیفکیٹ دے کر رشوت وصول کر کے اسے چھوڑ دیتی ہے۔ اس دور میں اغوا ایک بدترین اور منافع بخش کاروبار بن چکا ہے کیونکہ اگر چاہے بھی تو اغوا ہونےوالے کو تلاش نہیں کرسکتی۔ کیونکہ انکے پاس نہ توجدید ٹیکنالوجی ہے اور نہ ہی ہمت۔ نواب آف کالاباغ کے دور میں بچے اغوا کا ایک واقعہ ہوا تو گورنر مغربی پاکستان نے علاقے کے ایس ایس پی کے بچے منگوائے اور انہیں کالا باغ بھجوا کر کہا جب تک گمشدہ بچہ واپس نہیں ملتا تمہارے بچے بھی تمہیں واپس نہیں مل سکتے۔ اس اقدام کے چند دن بعد ہی گمشدہ بچہ والدین کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستان کی مایہ ناز ماہر انفارمیشن ٹیکنالوجی ارفع کریم رندھاوا ایک مرتبہ والد کےساتھ اپنے گاﺅں جارہی تھی راستے میں کچھ لوگ زمین پر کچھ تلاش کرتے نظر آئے۔ ارفع نے والد سے پوچھا ابا جان یہ لوگ کیا تلاش کر رہے ہیں۔ والد نے بتایا دیہاتوںمیں چور بھینسیں چرا کر لے جاتے ہیں یہ لوگ کھوجی ہیں جو قدموںکے نشان تلاش کر کے وہاں تک پہنچ جاتے ہیں۔ اس پرارفع کریم نے قہقہہ لگایا اور والد سے مخاطب ہو کر کہا ابا جان یہ کونسے زمانے کی بات کر رہے ہیں یہ کمپیوٹر کا دور ہے ایک چپ اگر بھینس پر چپکا دی جائے وہ جہاں بھی چلی جائے¾ کمیپوٹر پر بیٹھ کر چند سیکنڈوں اسے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اور کچھ نہیں کر سکتی تو کم از کم ڈاکٹر عمر سیف وائس چانسلر انفارمیشن ٹیکنالوجی سے درخواست کر کے بطور خاص بچوں کے والدین کو کیمپوٹر چپ مفت دلوا دے جو بچوں کے بستوں یا شرٹ کے کسی خفیہ خانے میں رکھ کر محفوظ کر دی جائے۔ اسطرح والدین بچے کے بارے میں ہر لمحے آگاہ بھی رہ سکیں گے اور خدانخواستہ اغوا کی صورت میں پولیس بھی ان تک باآسانی پہنچ بھی جایا کرےگی۔ اغوا کےساتھ ساتھ جنسی زیادتی کے کتنے ہی کیس سامنے آچکے ہیں کسی ایک کو بھی سزا ملتے ہوئے نظر نہیں آئی یہی وجہ ہے کہ جنسی جرائم ختم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ قصورکے نواح میں درجنوں بچوں سے زیادتی کا کیس مشہور ہوا۔ اس پر بھی پولیس کی مہربانی سے مٹی پڑ چکی ہے یقینا مجرم رہا بھی ہو چکے ہونگے۔ یہ وہ سانحہ ہے جو پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنا۔ جب تک مجرم کو کھلے عام سخت سزا نہیں ملے گی اس وقت تک دوسرے اس سے عبرت حاصل نہیں کریں گے۔ بہرکیف بچوں کے اغوا کا معاملہ ہو یا بچوں سے جنسی زیادتی کا مسئلہ جرم ثابت ہونے پر یہ سزا شہر کے کسی بھی معروف چوراہے پر سرے عام دی جائے۔