نائن الیون کے واقعہ سے اکیلا امریکہ ہی نہیں بلکہ پوری دنیا متاثر ہوئی۔ امریکہ کی نظروں میں چونکہ القاعدہ اور اسامہ بن لادن نائن الیون کے ”مجرم“ تھے، لہٰذا اُسے جہاں جہاں القاعدہ اور اسامہ بن لادن کے حامیوں کی موجودگی کا شبہہ ہوا، انکل سام اُن علاقوں اور ملکوں کو تہس نہس کرنے پر تل گیا۔ روس کی واپسی اور خانہ جنگی کے بعد افغانستان میں چونکہ اسامہ بن لادن اور طالبان کا اتحاد تھا، اس لیے امریکہ 2001ءمیں جب اِس اتحاد کو توڑنے کیلئے خطے میں آیا تو افغانستان تو امریکہ کے قہر کا شکار ہوا ہی، لیکن صف اول کا اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان بھی اِس جنگ میں رگید لیا گیا۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ شروع ہوئی اور ماضی کے مجاہدین دہشت گرد قرار پاکر بھیڑ بکریوں کی طرح مارے جانے لگے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسی زمانے میں قبائیلی علاقہ جات میں آباد پاکستان کی پہلی دفاعی لائن سمجھے جانے والے لوگ بھی ناراض نظر آنے لگے۔ یہی وہ موقع تھا جب قبائیلی علاقہ جات افغانستان سے بھاگے ہوئے اُن دہشت گردوں کی آماجگاہ بنے، جنہیں ستر کی دہائی میں پوری دنیا سے بڑے پیار اور چاو¿ کے ساتھ سر آنکھوں پر بٹھاکر افغانستان لایا گیا تھا تاکہ وہ گرم پانیوں کی تلاش میں وحشت پر آمادہ برفانی ریچھ (روس) کو مار مار کر واپس اُس کی کچھار میں دھکیل سکیں، لیکن افغانستان میں امریکہ کے آنے کے بعد جب اِن دہشت گردوں (مجاہدین) کا گھیراو¿ اور ہانکا شروع ہوا تو نیٹو فورسز اور ااُن کے اتحادیوں کی حکمت عملی انتہائی بے ہنگم، غیر منظم، ناقص اور بھونڈی تھی۔ اِس خام حکمت عملی کا نتیجہ نیٹو مسلسل طول اختیار کرتی جنگ اور طالبان کی شدید مزاحمت کی صورت میںآج بھی بھگت رہا ہے۔
طویل جنگی تاریخ رکھنے والے امریکہ کے حکمت کاروں کا خیال تھا کہ نیٹو کے فوجیوں کے گھوڑوں کے سموں سے اڑنے والی خاک طالبان کو خاک میں ملادے گی اور امریکی ”میرینز“ دہشت گردوں کو ہانکتے ہوئے دریائے آمو کے اُس پار دھکیل دے دیں گے، لیکن امریکیوں کا یہ خیال خام ثابت ہوا۔ اِس جنگ کو شروع کرنے کے سولہ سال بعد اگر امریکہ آج قندھار کے سرخ پہاڑوں کے دوسری جانب بیٹھا اپنے زخم سہلا رہا ہے تو اُس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ عقلمند تو دوسروں کے تجربے سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے، لیکن طویل حربی تاریخ رکھنے والے امریکہ نے واحد عالمی طاقت ہونے کے گھمنڈ میں اپنے ہی تجربات سے سیکھنے کی کوشش بھی نہ کی۔ یوں امریکہ ڈیڑھ دہائی سے مسلسل ایک ہی انداز میں ”ٹکریں“ مارے چلا جارہا ہے اور اب اُسے افغانستان سے نکلنے کا راستہ بھی نہیں مل رہا، لیکن اِس کے برعکس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زبردستی دھکیلے جانے کے باوجود پاکستان نے کمال کر دکھایا۔ اگر پاکستان بھی امریکہ کے نقش قدم پر چلتا رہتا تو پاکستان بھی آج امریکہ کی مانند بوکھلایا ہوا پھر رہا ہوتا! لیکن اس کے برعکس دو سال پہلے پاکستان نے ”آپریشن ضرب عضب“ کے نام سے دہشت گردی کے خلاف پہلا منظم اور مربوط آپریشن شروع کیا تو اس کے نتائج میں انتہائی مثبت برآمد ہوئے۔ اس آپریشن کے دوران ناصرف دہشت گردی کے واقعات میں غیر معمولی کمی واقع ہوئی بلکہ دہشت گردی کے علاوہ ملک میں امن و امان کو درپیش مختلف چیلنجز اور لاقانونیت سے نمٹنے کے بھی مثبت نتائج برآمد ہوئے۔ اِس آپریشن میں دہشت گرد مارے بھی گئے، شرپسند پکڑے بھی گئے اور بزدل دشمن بھگا بھی دیئے گئے۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں پاکستان میں امن کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتا دکھائی دینے لگا تھا اور آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں نے دنیا بھر کو پاکستان کے بہادر سپوتوں کا گرویدہ بنادیا تھا ، لیکن یہ بات بھارت کو ایک آنکھ نہ بھائی، پاکستان کو ہمیشہ میلی آنکھ سے دیکھنے کے متمنی بھارت کا جاسوسی کا بڑا نیٹ ورک پکڑا گیا تو بوکھلائے ہوئے بزدل کی طرح ”را“ کے ایجنٹوں نے دہشت گردی کو ایڑھ لگا دی۔ دہشت گردی کا یہ واقعہ دراصل آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں پر اور براہ راست پاکستان پر حملہ تھا۔ سانحہ کوئٹہ دشمن کی کارستانی تو تھی ہی لیکن اِس میں اپنی کوتاہیاں اور غفلت دیکھنے کا سامان بھی موجود ہے۔ سانحہ کوئٹہ کے بعد ذمہ داری اٹھانے کی بجائے ایک جانب کوتاہی اور غفلت کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش شروع کردی گئی۔ہر سانحے کی طرح اس سانحے کے بعد وہی روایتی انداز میں سر جوڑ لیے گئے اور قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کیلئے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر خان جنجوعہ کی سربراہی میں مانیٹرنگ کمیٹی قائم کردی گئی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان 60 ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قربانی دے چکا ہے، جبکہ معاشی طور پر 118 ارب ڈالرکا نقصان الگ سے ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اتنی زیادہ قربانیاں جہاں یہ تقاضہ کرتی ہیں کہ بیرونی دنیا پاکستان کی ان قربانیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے اس عفریت کے خاتمے میں پاکستان کی مدد کرے، وہیں کچھ اندرونی تقاضے بھی ہیں کہ عظیم مقصد کے حصول کی راہ میں آنے والے چیلنجز، ناکامیوں یا رکاوٹوں کا ملبہ ایک دوسرے پر ڈالنے کی بجائے مل کر آگے بڑھا جائے۔ ضروری ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کو مصلحتوں سے پاک رکھا جائے، پولیس میں بھرتی کیلئے میرٹ پر سختی سے عمل کیاجائے۔ افغان مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھجوانے کا بندوبست کیا جائے۔شدت پسند تنظیموں کا مکمل خاتمہ کیا جائے اور کالعدم تنظیموں کو نام بدل کر کام کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔بہت ضروری ہے کہ ہر ادارہ اپنی ذمہ داری کو قومی فریضہ سمجھ کر ادا کرے۔ الزام تراشیوں کی بجائے خوداحتسابی کا نظام اپنایا جائے تو نتایج بہتر نکلیں گے۔ درپیش چیلنجز پر سیاست کرنے کے بجائے، چیلنجز کو انتہائی سنجیدگی سے لیا جائے تاکہ قومی اتفاق رائے کے ساتھ دشمن کو بھرپور شکست دی جاسکے۔ نیشنل ایکشن پلان کے کچھ نکات پر اب بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے، ان میں دہشت گردوں کی مالی معاونت کے خلاف کارروائی، کالعدم جماعتوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں کی بیرونِ ملک سے فنڈنگ اور نفرت انگیز مواد کے خاتمے کے علاوہ مدارس میں اصلاحات جیسے اہم نکات ابھی تشنہ ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کسی ایک ادارے کا آپریشن نہیں ہے، بلکہ یہ پاکستان کی بقاءاور سلامتی کا آپریشن ہے، اس آپریشن کی مکمل کامیابی پاکستان اور پوری قوم کی کامیابی ہوگی، لیکن یہ کامیابی اُسی وقت یقینی ہوسکتی ہے، جب قومی ایکشن پلان کے تمام بیس نکات پر مکمل عملدرآمد ہوگا۔
قارئین کرام! جنوری 2015سے جولائی 2016ءتک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 568 پاکستانی شہریوں اور فوجی جوانوں کا لہو بہہ چکا تھا، اور اب آزادی کے مہینے اگست میں مزید 72 شہریوں کا لہو قومی ایکشن پلان کے چراغ میں شامل ہوچکا ہے۔ قوم اور فوج کے جوان تو اپنے لہو کے چراغ روشن کرکے امید کی کرن دکھا چکے ہیں، اب یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کو اپنا نصب العین بناکر اپنے حصے کا کام کریں۔ قومی ایکشن پلان کو وہ چراغ سمجھا جانا چاہیے جس کی مدد سے دہشت گردی کے اندھیروں کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ عہد کیا جانا چاہیے کہ اب اِسی چراغ کو جلاکر روشنی کرنی ہے، ورنہ عوام اپنے لہو کے چراغ کب تک جلاتے رہیں گے؟
لہو کے چراغ کب تک جلائیں گے؟
Aug 22, 2016