اسلامی تعاون تنظیم (اوآئی سی)کے سیکرٹری جنرل ایاد ا مین مدنی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی خوہشات کے مطابق اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل ہونا چاہیے۔مقبوضہ کشمیر میں دن بدن بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارت یہ بات اپنے دل و دماغ سے نکال دے کہ کشمیر اس کا اندرونی معاملہ ہے۔کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں رہا ہے۔بلکہ بھارت نے شروع دن سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ او آئی سی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل چاہتی ہے۔کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر انہوں نے کہا اب وقت آگیا ہے کہ عالمی برادری کشمیری عوام کی آواذ کو سمجھے۔ہمیں مل جل کے دنیا کو بتانا ہے کہ بھارت کی ظالم فوج کشمیری عوام پر بدترین تشدد کر رہی ہے۔کشمیر میں کوئی گھر ایسا نہیں جس میں سے کسی کا بیٹا بھائی باپ یا کوئی رشتہ دار بھارتی فوج کے ظلم کا شکار نہ بنا ہو۔کسی بھی قوم کو ظلم و زیادتی سے زیادہ دیر تک اپنا محکوم بنا کر نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ عالمی اداروں کو صرف بیان باذی سے وقت پاس نہیں کرنا ہے بلکہ بھارتی حکومت پر سختی کرنا ہوگی کہ وہ کشمیری عوام پر ظلم بند کرے۔ اس وقت ضرورت ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور کشمیر میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو جانے کی اجازت دے۔ ابھی پچھلے دنوں بھارت نے ایک بار پھر کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کو جانے کی اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔ بھارت کا یہ رویہ اقوام عالم کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں انسانی حقوق کی سب سے زیادہ خلاف ورزیاں بھارت میں ہو رہی ہیں۔ کشمیری عوام کے حقوق واپس کرنا اقوام متحدہ کی زمہ داری ہے۔ کشمیر کسی بھی طور پر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے۔ اس مسئلہ پر پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی کہا ہے کہ بھارت کشمیر میں انسانی جانوں کے ضیاع سے گریز کرے۔ علاقے میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے انہوں نے پاکستا نی حکومت کی کوششوں کی تعریف کی ہے ان کا یہ کہنا کہ وہ دونوں ملکوں کی رضا مندی سے ثالثی کا کرداد ادا کرنے کو تیار ہیں۔ مگر بان کی مون اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل ہیں اور کشمیر اقوام متحدہ میں حل طلب سب سے پرانا مسئلہ ہے۔انہیں ایک قدم اور آگے بڑھ کے بھارت کو اس کا وہ وعدہ یاد کرانا ہوگا جو اس نے ا قوام متحدہ میں کیا تھا۔ اگر دنیا کو کسی بڑی تباہی سے بچانا ہے تو اقوام عالم کا فرض ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور بھارت کو مذ اکرات کی میز پر لے کر آئیں۔مسئلہ کشمیر کو باہمی رضامندی سے حل کرنے کی غرص سے بھارت ہی اقوام متحدہ لے کر گیا تھا۔ بھارت کے اس وقت کے لیڈروں نے جب دیکھا کہ کشمیری ان کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو وہ اس مسئلہ کو اقوام متحدہ لے گئے اور عالمی فورم پر یہ وعدہ کیا کہ کشمیریوں کو ان کی مرضی کا فیصلہ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ ان کی مرضی وہ بھارت سے جڑے رہیں,ان کی مرضی وہ پاکستان سے سے الحاق کرلیں یا پھر وہ اپنی آزاد ریاست بنالیں۔ کشمیری عوام نے پہلے دن سے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا ہوا ہے۔ کشمیر کا بچہ بچہ پاکستان سے الحاق کا خواہشمند ہے۔انہوں نے بھارتی تسلط کبھی قبول نہیں کیا ہے۔ بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق کشمیریوں کا جنون ہے۔ انہوں نے ہر دور میں ہر وقت مقبوضہ کشمیر میں پاکستانی پرچم بلند کیا ہے۔ اس کے بدلے میںبھارتی جابر فوج کے ہر ظلم کو برداشت کر رہے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کشمیر پر اپنے موقف سے پیچھے ہٹتا چلا گیا اور پھر اس نے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنا شروع کر دیا۔پاکستان نے ہر دور میں کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے۔ میاں نواذ شریف نے پچھلے سال اقوام متحدہ کے سربراہی اجلاس میں کشمیریوں کے جذبات کی بھر پور انداذ میں نمائندگی تھی اور اقوام عالم کے دوغلے کردار کو نمایاں کیا تھا۔ اگر پاکستا ن میں دھرنا سیاست نہ ہوتی تو اس بات کا یقین تھا کہ پاکستانی حکومت دنیا کے سامنے بھارتی درندگی کے ثبوت زیادہ اثر دار طریقے سے پیش کرتی سکتی۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب بھارت کے خلاف نہیں بولتے انہیں یاد ہونا چاہیے کہ جب بھارت نے ایٹمی دھماکے کیے تھے تو ساری دنیا کی طرف سے میاں نواذ شریف اور ان کی حکومت پر دباوْ ڈالا گیا تھا کہ پاکستان جوابی دھماکے نہ کرے۔ مگر یہ نواذ حکومت کا احسان ہے کہ انہوں نے ہر طرح کے دباو کی پروا نہ کرتے ہوئے پاکستان کو پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بنا دیا۔ اگر ہماری ساری سیاسی جماعتیں کشمیر کیے مسئلے پر حکومت کے ساتھ کھڑی ہو جائیں اور سب مل کر ایک نظریے کے تحت کشمیریوں کی آواز دنیا کے ہر فورم پر بلند کرنا شروع کر دیں تو بہت جلد بھارت کو کشمیر سے نکلا جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے پہلے ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی حکومت کشمیر کے سلگتے مسئلے کو دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر نمایاں انداذ میں پیش کرتی رہی ہے۔مگر پاکستان میں کمزور سیاسی حکومتیں زیادہ وقت اپنی حکومتوں کے بچاو میں ہی گزار تی رہی ہیں۔پاکستان کے یوم آزادی پر بلوچ بھائیوں نے جس طرح ریلیاں نکالی ہیں اس سے بھارت اور اس کے ایجنٹوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب وہ جتنی مرضی کوشش کر لیں بلوچ عوام کے جذبہ حب الوطنی کو کم نہیں کر سکتے ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے دوسری طرف کشمیر کبھی بھی بھارت کا حصہ نہیں بن پایا۔ وہاں ہر دور میں برہان جیسے دلیر مجاہد بھارتی فوج کے سامنے سینہ تان کے کھڑے رہے ہیں اور اپنی آزادی تک کھڑے رہیں گے۔
کشمیر بھارت کا اندرونی معاملہ نہیں
Aug 22, 2016