مقبوضہ کشمیر میں 8 جولائی 2016ءکو عسکریت پسند رہنما برہان وانی کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہادت کے بعد شروع احتجاجی مظاہروں میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرنے والے کشمیریوں کی تعداد تادم تحریر 85 سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ نہتے اور پرامن کشمیریوں پر بھارتی فورسز کی جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ اور احتجاج کرنے والے کشمیریوں پر یہ وحشیانہ تشدد پہلی بار نہیں ہوا بلکہ درندگی کا یہ کھیل بھارتی فوج گزشتہ کئی برسوں سے کھیلتی چلی آرہی ہے۔ عسکریت پسند رہنما برہان کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا اور پھر جام شہادت نوش کرنے والے اس مجاہد پر جس طرح الزام تراشی کی گئی۔ اس سے کشمیری نوجوانوں میں شہادت کے ایک اور ولولے نے جنم لیا ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی معطل کی گئی سہولت کے باوجود برہان وانی کی شہادت پر کشمیری عوام پرامن احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں جس پر عالمی ذرائع ابلاغ ہی نہیں بھارتی سیاستدان بھی مودی سرکار پر اب کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔
راجیہ سبھا میں قائد حزب اختلاف غلام نبی آزاد کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں قائم کٹھ پتلی حکومت کے پاس مسائل حل کرنے کے لئے چونکہ افرادی قوت ہی نہیں اس لئے مسائل بڑھ رہے ہیں جس سے بے گناہ خواتین اور بچے مر رہے ہیں۔ جبکہ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی ہی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک رکن کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل میں جتنا مزید وقت لگے گا یہ مسئلہ اور پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا۔ اسی طرح جنتا دل پارٹی کے شردیادیو نے کہا کہ وقت اب بدل چکا ہے اس لئے پاکستان سے ہم اب کسی اور جنگ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ کشمیریوں کو اگر اپنا بنانا ہے تو انکے دل جیتنے ہوں گے۔ کانگرس کے ڈیرک روبرائن نے کہا کہ عسکریت پسند رہنما برہان وانی جب تک زندہ تھا تو وہ بھارت کے لئے انتہائی خطرناک بن چکا تھا مگر اب جبکہ بھارتی فورسز نے اسے قتل کر دیا ہے تو اب وہ اور بھی زیادہ خطرناک ہو گیا ہے۔ اسی طرح اپوزیشن کے بعض دیگر ارکان نے بھی مودی سرکار پر زور دیا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں جاری احتجاجی مظاہرے اور پولیس جانب سے پیلٹ گن سے ہونے والی ہلاکتوں کو فوری طور پر روکتے ہوئے امن کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے کہ محض پاکستان پر ذمہ داری ڈالنے سے قتل و غارت کا یہ معاملہ سو حل نہیں ہو سکے گا۔
ایک جانب تو اپوزیشن مودی سرکار کو جنجھوڑ رہی ہے مگر دوسری جانب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ نریندر مودی کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی کہ مقبوضہ کشمیر نہ کل نہ آج اور نہ ہی آئندہ بھارت کا حصہ تھا اور نہ ہو گا کیونکہ اقوام متحدہ کے مطابق آج بھی یہ ایک تسلیم شدہ ایسی متنازعہ ریاست ہے جس کے مستقبل کا فیصلہ اس ریاست کے عوام کو کرنا ہے۔ یو این او کی Clause 47 میں صاف وضاحت ہے کہ اقوام متحدہ کشمیر میں رائے شماری کی پابند ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ کس بنیاد پر قرار دیتی ہیں سیاسی بیان یا انکا ذاتی نقطہ نظر تو ہو سکتا ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر اور جموں بھارت کا حصہ نہیں یہی وہ سوچ اور یہی وہ نامکمل ایجنڈا ہے جس کی بنا پر بھارتی افواج ہٹ دھرمی کا شکار ہے۔
بھارتی فورسز کا نہتے اور پرامن شہریوں پر ”پیلٹ گن“ سے فائرنگ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی افواج اب چھروں کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو بینائی سے محروم کرنے کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے جبکہ کشمیری نوجوان حق خودارادیت کے جذبہ سے سرشار بھارتی فورسز کی ایسی تمام وحشیانہ سرگرمیوں کو ناکام بنانے کا عزم جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ریاست میں 50 روز ناکامی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے یہ سیاسی چال چلتے ہوئے کہ بلوچستان‘ گلگلت اور آزاد کشمیر کے عوام آواز اٹھانے پر شکریہ ادا کر رہے ہیں عالمی میڈیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے یہ اقرار کر لیا ہے کہ بھارت بلوچستان میں ”را“ کے ذریعے دہشت گردوں کو فروغ دے رہا ہے۔
اس بارے میں ”را“ کے لئے کام کرنے والا بھارتی جاسوس کمانڈر کل بھوشن پہلے ہی اعتراف کر چکا ہے کہ بلوچستان میں ”را‘ کے ذریعے ہی دہشت گردی کی جا رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کو اب یہ ادراک کرنا ہو گا کہ جموں و کشمیر کا متنازعہ بموں یا گولیوں سے نہیں بلکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سنجیدہ سفارتکاری کے ذریعے ہی حل ہونا ہے۔ محض الزام تراشی یا دروغ گوئی سے یہ تنازعہ حل نہیں ہو گا۔ اس لئے انہیں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
متنازعہ کشمیر کو بلوچستان‘ گلگت یا آزاد کشمیر میں الجھانے سے حق خودارادیت میں مزید جذبہ پیدا ہو گا۔ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کئے ظلم و تشدد اور بربریت کا بھی حساب دینا ہے۔ اس لئے محض واویلا یا بوکھلاہٹ کا اظہار اس تنازعہ کا حل نہیں دینا جان چکی ہے کہ نہتے کشمیریوں پر کس نہج پر ظلم و ستم کیا جا رہا ہے۔ جہاں تک بلوچستان کا معاملہ ہے تو وہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے جس پر مودی کو قطعی کوئی حوالہ دینا نہیں چاہئے تھا۔ مگر افسوس! مودی نے بھارتی یوم آزادی پر بلوچستان کا حوالہ دے کر ایک انتہائی غیر سنجیدہ سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا ہے ادھر کانگریس رہنما اور سابق بھارتی وزیر خارجہ سلیمان خورشید اور بھارتی عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جسٹس ٹی ایس ٹھاکرے بھی وزیراعظم مودی کی یوم آزادی پر کی تقریر کو مایوس کن قرار دیا ہے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دوسروں کی نہیں پہلے اپنی خبر لینی چاہئے.... ضرورت واقعی اب اس امر کی ہے کہ بھارتی وزیراعظم بلوچستان‘ گلگت اور آزاد کشمیر کے بجائے اپنے گھر کی خبر لیں.... دنیا یہ جان چکی ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ میں اہل ہاتھ کس کا ہے....؟ ڈھکوسلوں کے بجائے توجہ اب مقبوضہ کشمیر کی آزادی کی جانب دی جائے کہ آزاد کشمیر کی جدوجہد اب جلد ہی اپنے منطقی انجام تک پہنچنے والی ہے کہ آزادی کا چراغ روشن ہو چکا ہے جسے اب پھونکوں سے بجھانا ممکن نہیں۔