اس ملک و قوم کا ہر بچہ قرض غیر کے نیچے دبا ہوا ہے۔ حادثات و آفات میں گھرے ہوئے عدم تحفظ کے احساسات آنکھوں میں لئے متوحش لوگوں کو اگرچہ آزادی کے گیت ترانے گانے سے جھنڈیاں لہرانے سے گھروں اور عمارات کو سجانے سے وقتی خوشی تو ضرور مل جاتی ہے مگر یہ سب بہت عارضی ہوتا ہے۔ 14 اگست گزرنے کے بعد ہر جگہ ادھر ادھر بکھری قومی پرچم کی جھنڈیاں ہماری جہالت کا مذاق اڑاتی ہیں۔ یہ سوچ کہ اب 14 اگست گزر گیا اب ان کو پھینک دو‘ پھاڑ دو یا جہاں مرضی ڈال دو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سوچ نہایت قابل افسوس ہے۔ یہی جشن آزادی ہے کیا؟ اگر جشن منانا ہی ہے تو پھر کیوں نہ ایسا کریں کہ اب کی بار میری درخواست ہے کہ پاکستان کی قوم کا ہر فرد ایک عہد کر لے کہ آئندہ سال وطن عزیز کا جشن آزادی منانے کےلئے ہر شخص اپنی اپنی ایک ایسی خدمت پیش کریگا جس سے وطن عزیز کو درحقیقت فائدہ ہو سکے۔ مثلاً اپنی ڈیوٹی پر وقت پر پہنچنے کا عہد کر لیں‘ رشوت نہ لینے کا عہد کر لیں‘ دیانت داری سے کام کرنے کا عہد کر لیں‘ کم نہ تولنے کا عہد کر لیں‘ جھوٹ نہ بولنے کاعہد کر لیں‘ اپنے اپنے گروہی اختلافات ختم کرنے کا عہد کر لیں۔ اس عہد کے ساتھ آنے والے اگلے 14 اگست کو بے شک خوشی اور کامیابی سے منائیں یہ ہو گا حقیقی جشن آزادی لیکن ایسے کسی جشن کی کسی طور پر کوئی ضرورت و اہمیت نہیں جسے دیکھ کر دشمن مسکرا اٹھے اور کہے کہ دیکھو کس قدر بے ضمیر لوگ ہیں اپنی بربادیوں کا اپنے پیاروں کے چیتھڑے اڑا کر جشن منا رہے ہیں۔ ایسے نمائشی جشن جس قدر منا لئے جائیں ہمارے ملک پر چھائے غموں کے بادل دور نہیں ہو سکتے۔ بہتر ہو گا کہ اس سال اپنے گھروں پر جھنڈیاں لگانے‘ قمقمے سجانے اور ناچنے گانے کے بجائے ہم اپنے پاکستانی بھائیوں کو جو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے ان کے گھروں میں جا کر ان کے ورثاءکے دکھ میں شریک ہو جائیں۔ ان کے درد کو جانیں‘ ان کی مالی معاونت کر دیں۔ ایسے جشن اس وقت منانا ہمیں زیب دیگا جب ہماری سرزمین پر امن و سکون ہو گا۔ بچے بے خوف سکول جائیں گے اور کسی بھی ہجوم میں کہیں سے بھی کسی دھماکے اور گولی کی کوئی آواز نہ ہو گی۔ محلے میں ایک آدمی بھی مر جائے تو پورا محلہ میوزک‘ خوشی‘ شادی کو نہایت سادہ تقریب میں بدل دیتا ہے ایسا احترام انسانیت کے طور پر کیا جاتا ہے تاکہ دلوں میں ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس مرنے نہ پائے۔ بے حسی کو فروغ حاصل نہ ہو اور دل جڑے رہیں۔ پھر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا کہ پشاور میں ہونیوالی معصوم فرشتوں کی شہادت اور بدترین دہشت گردی پر کوئٹہ میں وکلاءاور دیگران پر ہونیوالی دہشت گردی پر ان کی شہادتوں پر وطن عزیز میں احتراماً آزادی حاصل ہونیوالے 14 اگست کے دن کو فاتحہ‘ درود اور قرآن خوانی و دعائیں کر کے یاد کیا جائے ۔ نہ کہ بے ہنگم میوزک پر دیوانہ وار رقص کر کے شور و غل کر کے ٹی وی شوز پر بیہودہ حرکات کر کے اس عظیم دن حاصل ہونیوالی آزادی کو تقلید مغرب کی غلامانہ بے حرمتی کا ایک ریکارڈ ثبوت بنا دیا جائے؟ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ وہی کریں جس کی آپ کا ضمیر آپ کو اجازت دے۔ میری دعا ہے کہ اللہ آپ کے ضمیر کو آپ کی زندگی کا بہترین رہبر بنائے۔ آمین