عام خیال یہی ہے کہ پاکستان میں صرف ایک قومی انتخاب ایسا بھی منعقد کرایا گیا جس کے شفاف ہونے پر کوئی اعتراض نہ کیا گیا اور نہ ہی اس پر کوئی انگلی اٹھی یہ انتخاب جنرل یحییٰ کے دور میں ہوا جبکہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ جنرل یحییٰ کسی عوامی چنا¶ کے ساتھ پاکستان کا حکمران نہیں بنا تھا البتہ وہ وقت کی ضرورت تھا۔ وقت نے ہی اسے کرسی اقتدار پر لا بٹھایا تھا اور اس حکمران کی پشت پر ایک مسلح ادارہ کھڑا تھا جس کے وجود میں تقریباً چھ لاکھ منظم جنگجو موجود تھے۔ مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان کی آبادی کے مقابلے میں زیادہ تھی اور وہاں قانون ساز ادارے کی نشستیں بھی زیادہ تھیں لہٰذا صاف شفاف الیکشن کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخ مجیب الرحمٰن کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اکثر نشستیں جیت کر پاکستان کا حق حکمرانی حاصل کر لیا اور انتخابی نتیجے کے حوالے سے شیخ مجیب الرحمٰن پاکستان کا آئینی اور قانونی وزیراعظم بن گیا جبکہ مغربی پاکستان حزب اختلاف بن گیا اور مغرب کی بڑی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کا قائد مسٹر ذوالفقار علی بھٹو قائد حزب اختلاف بننے کا حقدار ہو گیا۔ لیکن ریاست کی بدقسمتی اس وقت شروع ہوئی جب مغربی پاکستان کے بڑی سیاسی جماعت پی پی پی کے قائد نے عوام کے فیصلے کو قبول نہ کیا اور فوجی صدر کو ایک سازشی کھیل کا حصہ بنا کر ملک کو سیاسی طوفان میں دھکیل دیا گیا۔ مغربی پاکستان کے جو سیاستدان جمہوری جھنڈے اٹھا کر جمہوریت جمہوریت کھیل رہے تھے وہی جھنڈے پھینک کر اور ڈنڈے اٹھا کر جمہوریت کے خلاف میدان میں آ گئے اور انہوں نے ہی جمہور کی رائے کو مسترد کرکے کوڑے دان میں پھینک دیا۔ مغربی پاکستان کے جاگیردار‘ سردار اور افسر یہ نہیں چاہتے تھے کہ ایک جذباتی اور مشرق کا غریب سیاستدان پاکستان کا وزیراعظم بنے مغربی طاقتوں کو یہ خدشہ لاحق تھا کہ اگر مشرقی پاکستان سے وزیراعظم آ گیا تو وہ اس نو آبادیاتی نظام کو ختم کر دے گا جو مغربی پاکستان کا تو پسندیدہ ہے لیکن یہ فرسودہ نظام مشرقی پاکستان کیلئے قطعاً ناقابل قبول ہے لہٰذا قطعی طور پر یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ ریاست کا اقتدار اعلیٰ مشرقی حصے کو کبھی نہیں دیا جائے گا۔ فیصلہ تو جمہوریت پسندوں نے کر لیا تھا کہ مشرقی پاکستان کو ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ دینا ہے لیکن محض وقت کاا نتظار کرتے ہوئے مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھ مذاکرات کا ڈول ڈالا۔ مسٹر بھٹو نے مذاکرات کیلئے بنگال جانے سے پہلے اپنے دوستوں سے یہ مشورہ مانگا کہ وہ شیخ سے کس انداز میں بات کرے؟ اس مشاورت میں الطاف گوہر بھی شامل تھا۔ الطاف گوہر افسر شاہی کے کلیدی پرزوں میں ایک بڑا نام تھا وہ ذوالفقار علی بھٹو کے دوستوں میں شامل تھا۔ الطاف گوہر نے اپنی نوکری کے تقریباً چھ سال مشرقی پاکستان کے اہم ترین انتظامی عہدوں پر فائز رہ کر گزارے اور وہ شیخ مجیب الرحمٰن‘ فضل الحق شیر بنگال اور سہروردی کے علاوہ بہت سے بنگالی سیاستدانوں کے مزاج اور عادات کو بہت قریب سے جانتا تھا۔ مسٹر الطاف گوہر نے زیڈ اے بھٹو کو مشورہ دیا کہ آپ آئینی فیصلے کو تسلیم کریں اور شیخ مجیب الرحمٰن کو پاکستان کا وزیراعظم بننے دیں۔ صرف چند ماہ میں جذباتی شیخ ناکام ہو جائے گا اور بنگالی لوگ خود اپنے ہیرو سے نفرت کر کے اسے زیرو بنا دیں گے لیکن مسٹر بھٹو نے بڑے غصے میں الطاف گوہر کو جواب دیا۔ او مسٹر! میرے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ میں پارلیمنٹ میں بیٹھ کر شیخ مجیب الرحمٰن کا منہ دیکھوں اور اس کی ناکامی کا انتظار کروں۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کے دل میں ایک خوف تھا ان کے سامنے ان کے دو بھائی امداد علی بھٹو اور سکندر علی بھٹو تقریباً چالیس سال یا اس سے بھی کم عمر پا کر فوت ہو گئے تھے۔ ان دو جواں سال بھائیوں کی اموات نے ذوالفقار علی بھٹو کے دماغ میں ایک وہم کو یقین میں بدل دیا تھا کہ ان کی موت بھی جوانی میں ہی ہو گی لہٰذا دنیا میں جو کچھ کرنا ہے جلد کر لیا جائے اور دنیا نے پھر دیکھا کہ سب کچھ جلدی جلدی ہی ہو گیا۔ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش کے قالب میں ڈھلنے میں بھی جلدی تھی۔ عالم اسلام کو ایک بڑی شکست میں مبتلا ہونے میں بھی جلدی تھی۔ راولپنڈی کی جیل میں ایک جلاد کو بھی جلدی تھی کہ اس نے خلاف معمول رات ڈھلنے سے پہلے ہی تختے کو گرا دیا اور پھر ایک مضبوط اور قابل اعتبار ہوائی جہاز سی ۱۳۰ کو زمین بوس ہونے کی بھی بہت جلدی تھی۔ بعض جلد بازیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو جلد سمجھ میں آجاتی ہیں لیکن عافیت اسی میں ہے کہ سب کچھ جاننے والے بھی بڑے انجان سے بن کر لوگوں سے یہ سوال کرتے پھریں کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ اور کس نے کیا؟ عجیب ستم ظریفی یہ ہے کہ آج پاکستان میںپھر وہی صورتحال نظر آرہی ہے۔ اور اب دنیا کو اور خود کو یقین دلانے کیلئے ہم بار بار اخباری بیانات جاری کرتے ہیں کہ جان لو بھائی! کہ ہم ایک قوم ہیں اور بہت جلد ہم بڑی فتوحات حاصل کرلیں گے۔ پاکستان میں جمہوریت عوام کو فتح کرنے کا نام ہے۔ عوام کو ہر حکومت کے بعد ایک نئی حکومت فتح کرتی ہے اور ہر فاتح کے ساتھ ایسے جنگجو سردار ہوتے ہیں جو عوام کا خون پینا پسند کرتے ہیں اور وہ جلدی میں بھی ہوتے ہیں کیونکہ ان کی باری کے بعد دوسروں کی باری ہوتی ہے جو قطار میں لگے بیتاب کھڑے ہوتے ہیں۔
ہم اب فاتحہ خوانی کرنے‘ دعائے مغفرت پڑھنے اور مقتولوں کے قاتلوں کا کھرا گم کرنے کے فنون میں ماہر ہو گئے ہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم ایک بیدار مغز ہجوم ہیں اور ہمیں قوم بننے کا کوئی خاص شوق ہی نہیں ہے۔ پشاور کے سکول میں بچے ذبح ہوئے‘ لاہور میں ماڈل ٹا¶ن میں بے گناہوں کو سرکاری گولیوں سے بھون دیا گیا۔ کوئٹہ میں وکیلوں کو بارود سے اڑا دیا گیا یہاں قاتل سرکاری ہوں یا غیر سرکاری سب کا کھرا گم ہو جاتا ہے اور لوگ لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ مرنے والے مر گئے مقدر یہی تھا۔ حساب بیباک ہوا اب تو جب یہ نعرہ لگتا ہے کہ تو اٹھارہ کروڑ انسان ہنستے ہیں کہ چلو کافی دیر بعد اچھا لطیفہ سننے کو ملا ہے اور جب یہ سندیسہ ملتا ہے کہ اٹھارہ کروڑ سوئے ہوئے انسانوں کی حفاظت صرف چند لاکھ بندوق بردار کر لیں گے تو تقدیر ہنستی ہے کہ یہ کس مزاج کے لوگ ہیں جو یہ بھی نہیں جانتے کہ خواب کچھ اور ہوتے ہیں اور تعبیریں کچھ ہوتی ہیں۔