اسلام آباد (صباح نیوز) پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی تشویش کو اہم پیش رفت قرار دیتے ہوئے واضح کردیا ہے کہ عالمی مداخلت کے بغیر مسئلہ کشمیر کا حل ممکن نہیں، پاکستان بھارت تعلقات کا راستہ کشمیر سے ہوکر گزرتا ہے، اقوام متحدہ کشمیر پر اپنی قراردادوں کی پاسداری کے لئے اقدامات کرے جس کا اسے اختیار حاصل ہے، اقوم متحدہ کشمیریوں کو حق خودارادیت نہیں دلاتا تو اس ادرے کے قیام کا جواز ہی باقی نہیں رہتا، حکومت کسی خط پر خوش فہمی میں مبتلا رہنے کے بجائے فوری طور پر مسئلہ کشمیر پر پارلیمینٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے، پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور دانشوروں میں مسئلہ کشمیر پر یکسوئی پائی جاتی ہے اسے برقرار رہنا چاہئے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا محض خط لکھنا کافی نہیں، اقوام متحدہ مسئلہ کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عملدرآمد کے لیے تمام ذرائع اور وسائل بروئے کار لاتے ہوئے کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی رکوائے۔ اپوزیشن نے اقوام متحدہ کے کشمیر پر سیکرٹری جنرل کے خط اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر فوری پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کو کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عمل درآمد کیلئے سرگرم کردار ادا کرنا چاہئے، کشمیری عوام کو آزادانہ اور منصفانہ استصواب رائے کے ذریعے قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق دینا چاہئے۔ مذاکرات میں محض سہولت کار بننے سے مسئلہ کشمیر کا حتمی اور پائیدار حل ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس مسئلے کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل در امد کے نتیجے میں ہی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ مودی نے بلوچستان، کشمیر اورگلگت بلتستان کو متنازع بنانے کی کوشش کی ہے مگر یہاں کے غیور عوام پاکستان کے سبز ہلالی پرچم تلے ایک ہیں اور اگر دوسری طرف بھارت مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے کرائے تو پھر فیصلہ ہو جائے گا کہ بھارت نے جبر اور تشدد سے کشمیری عوام کو محکوم بنا رکھا ہے اور وہ بھارت سے مکمل آزادی اور نجات چاہتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین کے دیرینہ مسئلے کو حل کئے بغیر دنیا میں پائیدار امن کے قیام کا خواب شرمندہِ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ پیپلز پارٹی نے کشمیر اور فلسطین کے حقوق کیلئے ہمیشہ ملکی اور عالمی سطح پر اواز بلند کی ہے اور آئندہ بھی ہم سیاسی مفاد سے قطع نظر مسلمانوں کے حقوق کیلئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہیں گے۔ کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے۔ راجہ ظفر الحق نے کہا کہ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی دو درجن کے قریب متفقہ قراردادیں منظورہوئی ہیںان قراردادوں پر پاکستان اور بھارت دونوں نے دستخط کر رکھے ہیں جبکہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے بھی ان قراردادوں پر دستخط موجود ہیں اسی طرح دنیا بھر کی مختلف قیادتوں کی جانب سے بھی وقتاً فوقتاً کشمیر کے تنازعہ پر بیانات اور پیغامات کا سلسلہ جاری رہتا ہے بھارت کو چاہئے کہ وہ عالمی رائے عامہ کا احترام کرے اور دنیا بھر سے جو وعدہ کیا اس کی پاسداری کرے۔ مودی کے بیانات کو خود بھارتی دانشور ظالمانہ اور احمقانہ قرار دے رہے ہیں، انہیں خود اپنی سرزمین پر ان بیانات کو ترک کرنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے پہلی بار ایسا ہوا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ، سیاستدانوں اور دانشوروں میں جو یکسوئی پائی جاتی ہے اسے برقرار رہنا چاہئے۔ پاکستان بھارت تعلقات کا راستہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور قومی اسمبلی کے سابق ڈپٹی سپیکر فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ بان کی مون کے جوابی خط پر ہمیں کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا اقدام اٹھایا جاتا تو یقیناً اقوام متحدہ کو پاکستان کی ان کوششوں سے یہاں اقوام متحدہ کے مندوب فوری طور پر آگاہ کرتے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مسئلہ کشمیر پر اپنی کمزوریوں کو دور کرے۔ ڈپٹی چیئرمین سینٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سیکرٹری جنرل مولانا عبد الغفور حیدری نے کہا کہ تحریک آزادی کشمیر کی حالیہ شدید لہر نے اقوام متحدہ کو اس مسئلے کی جانب متوجہ کیا ہے اقوام متحدہ کو چاہئے کہ وہ اپنے قیام کے مقصد پر پورا اترنے کے لیے کشمیریوں کو حق خود ارادیت دلائے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے کہا کہ اقوام متحدہ کا پاکستان کو مسئلہ کشمیر پر خط اہم پیشرفت ہے۔ توقع ہے کہ بھارتی اپنی ہٹ دھرمی کو ترک کرے گا۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور رکن قانون ساز اسمبلی عبدالرشید ترابی نے کہا کہ اقوام متحدہ بھارت کا آلہ کار بننے کی بجائے قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کے حوالے سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے کنوئینر غلام محمد صفی نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیرکے متنازعہ حثیت کو تسلیم کرتے ہیں۔ حریت کانفرنس آزادکشمیر کے ترجمان شیخ تجمل الاسلام نے کہاکہ بان کی مون کی ذمہ داری ثالثی سے بڑھ کر ہے۔ بان کی مون کی چھوٹی سی تسلی مظلوم کشمیری عوام کے لیے حوصلہ افزائی ہو سکتی ہے مگر یہ مسئلہ کا حل نہیں ہے۔