چاند و سورج گرہن کے منفی اثرات اور نبویؐ نماز گرہن

Aug 22, 2017

محی الدین بن احمد دین

پاکستان میں جزوی طور پر چاند گرہن 8-7 اگست کی رات کو ظہور میں آیا اور رات ڈیڑھ بجے تک موجود رہا تھا۔ ہم میں سے سنت نبویؐ پرعمل کرتے ہوئے کتنے خوش قسمتوں (حکمرانوں) نے چاند گرہن کی خصوصی نماز ادا کی اور استغفار کا راستہ اپنایا اور صدقات دیئے۔ اب سورج گرہن 21 اگست کو ظہور میں آ رہا ہے لہٰذا حکمرانوں کو خاص طور پر توجہ دینی چاہئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ جب امریکہ و جنوبی دنیا وغیرہ میں سورج گرہن ہو گا تو پاکستان میں رات ہو گی۔ ممکن ہے 22 اگست کی صبح کے قریب وہ وقت ہو جب پاکستان میں نظر نہ آنے کے باوجود سورج گرہن ہو گا۔ ماہرین نجوم و افلاک اور کچھ روحانی شخصیات دو گرہنوں کے مابین وقت کو بہت سے مصائب و مشکلات و آلام و آفات کے امکانات بتا رہے ہیں۔ وہ امریکی ماہرین مخفی علوم جنہوں نے ٹرمپ کے صدر بننے کے امکان کو دریافت کیا تھا اب بتا رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ کا اقتدار ہچکولے کھا رہا ہے۔ اگست کا مہینہ ان کیلئے بہت سی اقتدار کی مشکلات کا آئینہ دار ہے۔ جنوبی بھارت اور ملحقہ جنوبی دنیا میں گرہنوں کے وجود کو بھارت میں داخلی انارکی‘ عدم استحکام‘ علیحدگی پسند قوتوں کے عالم شباب کی واپسی اور توانا جذبہ حریت کا سبب کچھ ماہرین بتاتے رہے ہیں۔ ہندو ماہرین نجوم بھی داخلی بھارت کے 2018ء سے 2020ء تک کے عرصے کے حوالے سے تشویش میں مبتلا رہے ہیں۔ کیا مودی اقتدار کے اقلیتی کمزور طبقات جن میں دلت‘ مسیحی‘ مسلمان‘ سکھ اور کچھ ہندو قبائل شامل ہیں مودی ازم کو مذہبی و جنونی اقتدار سے مزید ابتلا میں آنے والے ہیں؟ کیا 22 علیحدگی کی توانا تحریکیں بھارتی وجود کو بکھر جانے کا پیغام دینے جا رہے ہیں؟ ’’ایام نحوست‘‘ کے وجود کو خاکسار قرآن پاک میں بیان شدہ حقیقت تسلیم کرتا ہے ’’دن‘‘ بذات خود منحوس نہیں ہوتا مگر فرد یا قوم یا افراد کے بداعمال اس کے لئے ’’جب‘‘ عذاب کا سبب اعلیٰ بن جاتے ہیں تو دوسروں کیلئے مفید دن بھی ان افراد یا اقوام یا قوم کے لئے اجتماعی طور پر منحوس دن بن جاتے ہیں۔ ’’نحوست‘‘ کے وجود کو ایک حدیث میں گھر‘ سواری اور بیوی کے حوالے سے بھی بتایا گیا ہے۔ ضروری نہیں ایک ’’دن‘‘ کو منحوس کہنے والوں کا موقف دوسری اقوام اور ادیان میں تسلیم کیا جاتا ہو۔ مثلاً ہندو ’’منگل‘‘ کو ’’مقید‘‘ کرنے والے دن کے طور پر بتاتے ہیں (منگل مارے سنگل) جبکہ منگل ہی وہ عظیم دن تھا جب آنحضرتؐ غار ثور کی حفاظتی جگہ سے نکل کر ہجرت روڈ کے ذریعے سفر ہجرت مبارک پر حضرت ابوبکر صدیقؓ کی معیت میں روانہ ہوئے تھے۔ یہ بات ثقہ عربی سیرت کُتب میں مرقوم ہے۔ گویا منگل کا دن اسلام‘ حضرت محمدؐ و ابوبکرؓ کے لئے مشکرین مکہ سے یوم نجات تھا۔ سورج اور اور چاند گرہن کے بارے میں ماہرین میں اختلاف ہے۔ صرف مغربی نجوم پر انحصار کرنے والے موقف رکھتے ہیں کہ گرہن کی جگہ نظر آئے یا نہ نظر آئے وہ عملاً گرہن ہی ہوتا ہے تمام دنیا چونکہ کائنات کا حصہ ہے اور سورج اور چاند کائنات نظام میں اہم ترین وجود ہیں لہٰذا جب یہ گرہن میں آتے ہیں تو ان کے منفی اثرات پوری دنیا میں یکساں طور پر ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک ’’120‘‘ دن تک سورج گرہن کے اثرا موجود رہتے ہیں البتہ ابتدائی دنوں اور ہفتوں میں زیادہ منفی ہوتے ہیں۔ چاند کے اثرات محدود مدت‘ یا دنوں کیلئے ہوتے ہیں جبکہ کچھ کا موقف ہے کہ جہاں گرہن ظہور میں ہو گا صرف وہاں ہی منفی اثرات ہوں گے جہاں نظر نہیں آیا وہاں ہرگز نہیں ہوں لگے۔ بدھ مت نجوم پر دسترس رکھنے والے موقف دیتے ہیں فوراً (120 دن) اثرات درست موقف نہیں کچھ مہینوں بعد بھی حتیٰ کہ دو سال اڑھائی سال مدت میں اسکے منفی اثرات ظہور پذیر ہوتے ہیں انتہا پسند عیسائی اور یہودی سورج گرہن اور چاند گرہن بطور خاص ’’سرخ چاندگرہن‘‘ کو بہت سی جنگوں کا سبب مانتے ہیں۔ مسلمانوں کو اس کے سدباب کیلئے آپس میںا تحاد و یکجہتی اپنانی چاہئے جبکہ ان کی لڑائیاں یہودی ایمپائر کے قیام میں مددگار بن رہی ہیں۔ ہمارا حاصل مطالعہ و تحقیق جستجو یہی ہے کہ عرب و عجم حکمران مسلمان آنکھیں کھولیں اوراپنے اپنے اجتماعی اسلامی وجود اپنے مکہ و مدینہ کے بارے میں تدبر و فراست کا راستہ اپنائیں۔ سورۃ بنی اسرائیل کی ابتدائی آیات کا مطالعہ ضرور توجہ سے کیا جانا چاہئے۔ خاکسار نے مطالعہ سیرت رسول کا سورج گرہن اور چاند گرہن کے حوالے سے مختصر سا دوبارہ مطالعہ کیا ہے صحیح بخاری میں خاص طورپر سورج گرہن (کسوف) اور چاند گرہن (خسوف) میں باب باندھا گیا ہے اور کچھ احادیث شامل کتاب کی گئی ہیں۔ صحیح مسلم میں بھی گرہنوں کواحادیث مواد میں زیر بحث لایا گیا ہے۔ صحیح بخاری کی روایت حضرت ابوبکرؓ ہے کہ ہم نبی کریمؐ کی خدمت میں حاضر تھے‘ سورج گرہن شروع ہوا‘ آنحضرتؐ جلدی میں مسجد تشریف لے گئے۔ ہم بھی ساتھ تھے آپ نے دو رکعت نماز پڑھائی تاآنکہ گرہن ختم ہو گیا۔ پھر آپؐ نے خطبہ میں فرمایا سورج یا چاند گرہن کسی کی ہلاکت یا موت سے نہیں ظہور میں آتا جب تم گرہن دیکھو تو نماز ادا کرو استغفار (دعائ) کرتے رہو تا آنکہ وہ ختم ہو جائے‘‘۔ ابو موسیٰؓ‘ ابن عمرؓ ‘ مغیرہؓ بن شعبہ کی بیان کردہ روایات صحیح بخاری کے مطابق جس دن سورج گرہن ہوا تو آپؐ کے بیٹے (ابراہیمؓ جو ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے تولد ہوئے) نے وفات پائی تھی (تب آپؐ نے فرمایا) سورج و چاند گرہن کسی کی موت سے نہیں ہوتا جب گرہن دیکھو نماز ادا کرو۔ استغفار کرو معافی مانگو‘‘ صحیح مسلم میں حضرت عائشہؓ اور صحیح بخاری میں حضرت اسمائؓ بنت ابی بکرؓ کی بیان کردہ روایات کے مطابق نماز سورج گرہن میں آپؐ نے طویل قیام کیا‘ پھر طویل رکوع کیا۔ (سجدہ میں جانے سے پہلے) دوبارہ سے طویل پہلے سے کچھ کم قیام کیا۔ پھر پہلے سے کچھ کم رکوع طویل کیا (یوم تین قیام اور تین رکوع کے بعد) آپؐ نے دو طویل سجدے کئے۔ یوں دورکعت نماز گرہن ادا کی۔ روایت عائشہؓ میں ذرا تفصیل ہے۔ تین طویل قیام (جن میں ثناء و سورہ الحمدو قرآنی آیات کی قرات) اور اللہ اکبر کہہ کر طویل رکوع اور پھر سمع اللہ لمن حمد (اللہ نے اس کی بات سن لی جس نے اللہ کی حمد بیان کی) فرماتے (پھرسجدہ میں جاتے) خطبہ میں آپؐ نے فرمایا گرہن اللہ کی آیات ہیں۔ انکے ذریعے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتے ہیں (تاکہ وہ عبرت حاصل کریں) جب گرہن دیکھو تو اللہ کا ذکر کرو تا آنکہ وہ ختم ہو جائے۔

مزیدخبریں