قارئین کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے بلکہ لمحہ موجود میں تو ہر لمحہ دل میں یہ احساس جاگزین ہے کہ آج کا انسان اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود بھی روحانی سطح پر ہر لمحہ شکست سے دو چار اور انتشار بکنار ہے۔ سکون قلب اعلی اخلاقی اقدار، روحانی طمانیت سب کچھ خواب و خیال ہو چکا ہے زندگی مشن کے بجائے مشین بن گئی ہے ایک دوسرے کیلئے ملائم احساسات، نیک خیالات اور کھرے جذبات قصہ پارینہ ہوچکے ہیں نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایسی کھردری، بدنیت اور مفاد پرستانہ سوچوں نے روحانی خلا کو بیکراں اور ذہنی انتشار کو نقطہ عروج پر پہنچا دیا ہے قارئین کرام ایسی شدید دکھ بھری بلکہ کرب و بلا کی کوڑھی کیفیت میں ہماری کچھ سر میں بصورت اقوال و افکار نوک قلم تک آجاتی ہیں آج وہی پیش ہیں ممکن ہے ہمارا کوئی ایک قول، کوئی ایک سوچ یا سوچ کا کوئی ایک نقطہ بھی آپ کیلئے باعث سکون و طمانیت بن سکے ہمارے لئے سکون کا سبب ہوگا۔ یاد رکھئے راہ حق پر چلنا شہادت کی راہ پر چلنے کے مترادف ہے مگر یہ شہادت صرف ایک ہی بار میدان جنگ میں نہیں قدم قدم پر دینی پڑتی ہے۔اگر آپ حق پر ہیں اپنے رب سے ہر لمحہ رابطے میں ہیں تو یقین کیجئے اس پاک ربط کے صدقے میں آپ تمام ترغم و آلام سے بچ سکتے ہیں
آخرت میں عمدہ فصل کی کاشت کیلئے دنیا کی کھیتی میں عمدہ عمل کا بیچ ڈالئے کیونکہ اگر بیج آپ کا ہے فصل آپ کی ہے تو کاشت بھی آپ ہی نے اپنے ہاتھوں سے کرنی اور اٹھانی ہے۔ اگر نیکی اور نیک نیتی آپ کا مذہب ہے تو پھر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا مذہب کیا ہے۔ ہمارے مسائل و مصائب اور دکھ درد ہماری اپنی اپنی نیت کی ٹھوکریں ہیں ان دونوں کی تعداد اور تناسب ذہن میں رکھیں گے تو اپنے دکھوں کا درد محسوس نہیں ہوگا۔ ضرورتاً نیکی اختیار کرنا حددرجہ ناقص عمل ہے کیونکہ یہ اگر فطرت نہیں تو پھر عادت بھی نہیں بن سکے گی بلکہ جلد ہی بدی میں بدل جائے گی جب کہ بدی عادت بن جائے تو آپ اسے ضرورتاً بھی نہیں چھوڑ سکتے لہذا بدی کی لت اور نیکی کی عادت میں فرق یادو برقرار رکھیں یہی جنت دوزخ کا فرق ہییادرکھئے بے ایمانی اور کالے وسائل سے حاصل شدہ کالی دولت سے اچانک خوشحال بن جانے والے لوگ گندے پانی میں اچانک پیدا ہو جانے والی مینڈکوں کی طرح ہوتے ہیں جن کی آنکھیں بظاہر ماتھوں پر لگی ہوتی ہیں اور وہ اپنا قد اونچا کرنے کیلئے پُھدکتے رہتے ہیں لیکن رہتے ہمیشہ گندے پانیوں ہی میں ہیں کیونکہ ان کا کام محض ٹرانا ہوتا ہے۔نیکی کرتے ہی بھول جائو ورنہ ایک نیکی کو یاد رکھے رہو گے تو دوسری نیکی کیسے کروگے؟ہر سطح پر مکمل ایمانداری ہی دینداری ہے اس سے ہٹ کر کوئی دوسرا دین نہیں ہے۔کسی کی کھری نیکی کو سنبھالنا اور برداشت کرنا براہ راست نیکی کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے اسلئے کہ بدی کرنے میں آپ کا ارادہ شامل ہوتا ہے جب کہ نیکی آپ کو بلا ارادہ برداشت کرنی پڑتی ہے جبکہ آپ کے پاس اسے سہنے کا ظرف نہیں ہوتا۔ جس طرح دیا سلائی جلا کردیئے کی زبان پر رکھی ہوئی بتی کو شعلہ دکھا دیں تو وہ شعلے کو زبان پر رکھ کر لو دیتی رہتی ہے اور اپنی پشت پر رکھے ہوئے دیئے کے اندر تیل کے ذخیرے تک پہنچے بغیر اپنے مقام پر روشن رہتی ہے بعینہ یہی حالت انسان کے دل کی ہے جس کو اگر رب رحیم اپنی یاد میں دھیرے دھیرے جلنے والی پرسکون و پراسرار روحانی روشنی کی شعلگی عطا کردے تو اس میں طالب و مطلوب کی وفا و رضا کا تیل خود بخود بڑھتا رہتا ہے اور اس کی پرنور شعلگی موت تک برقرار رہتی ہے بلکہ رہ سکتی ہے۔اگر آپ فطرتاً نیک ہیں تو اپنے ساتھ ہونے والی بدی کی انتہا کو بھی ایک نئی نیکی کی ابتدا کا جواز بنا سکتے ہیں کیونکہ خرابیوں ہی سے خوبیوں کے مواقع اور راستے نکلتے ہیں جبکہ امر ربی بھی یہی ہے کہ جبرو صبر کی پُل صراط پر چل کر ہی یہ راستہ طے ہوسکے گا۔ انسان کا جسم بظاہر کس قدر متناسب ثابت اور مضبوط نظر آتا ہے لیکن دراصل اس میں سینکڑوں لچکدار جوڑ موجود ہیںجن کا تحرک اس کی زندگی کا جواز ہے اگر یہ جوڑ نہ ہوتے تو وہ اکڑ کر پوری زندگی بستر پر تختے کی طرح بچھا رہتا اور آخر کار ٹوٹ پھوٹ جاتا بعینہ یہی صورت حال انسانی زندگی میں لچکدار روئیے کی ہے جس سے گریز و پرہیز کرنے سے وہ اپنے اور مد مقابل کے اکڑائو کے باعث ٹکرائو کا راستہ اختیار کرکے نقصان اٹھا سکتا ہے۔آپ اپنے اندر کی روشنی یا تیسری آنکھ سے اس وقت تک دنیا کو نہیں دیکھ سکتے جب تک کہ آپ کی دنیا داری اور ظاہر داری کی دونوں آنکھیں بند نہیں ہو جاتیں بالکل اس طرح جس طرح دو آنکھوں پر بیک وقت دو مختلف نمبروں کے شیشے والی عینک لگا کر کسی چیز کا صحیح فوکس نہیں لیا جاسکتا آپ کا ایک نمبر سے دستبردار ہونا پڑے گا۔جس طرح مریض کی جلد صحت یابی کیلئے بعض اوقات معالج پھوڑے کو پھوڑنے کا درد ناک عمل کرتے ہیں تاکہ گندہ مواد باہر نکل جائے عین اسی طرح آزمائشوں کا نشتر انسان کے اندر سے بدی، بدنیتی اور کم حوصلگی کا مواد باہر نکال ڈالتا ہے تب جا کر اس کی روحانی صحت یابی اور اندرونی صفائی ممکن ہوسکتی ہے۔ مصلحتاً وقتا فوقتاً یا عارضی طور پر اچھے بننے اور براہ راست اچھا ہونے میں وہی فرق ہے جو بناوٹ اور حقیقت میں یا منافقت اور سچائی میں ہوتا ہے ایسے عارضی اور فرضی اچھوں سے خبردار رہئے کیونکہ ان کی بدی ہی صرف ان کی حتمی خوبی ہوتی ہے ان کی عارضی اچھائی بلبلے کی مانند بنتی بجھتی رہتی ہے۔یادررکھئے جو لوگ اللہ تعالی پر کامل بھروسہ رکھتے ہیں وہ دنیاوی خساروں سے نہیں گھبراتے کیونکہ ان کا خسارہ بجائے خود خسارہ پہنچانے والوں کوBounce Backکردیا جاتا ہے علم دونوں کو بعد میں ہوتا ہے۔
کچھ اقوال و افکار
Aug 22, 2017