دمشق، لندن‘پیانگ یانگ(اے ایف پی+ اے پی پی+این این آئی) شام کے شہر رقہ میں امریکی اتحادی طیاروں کی بمباری سے بچوں اور خواتین سمیت 27 شہری جاں بحق ہو گئے۔ برطانیہ نے خبردار کیا ہے کہ عراق اور شام میں دہشت گرد گروہ داعش کی شکست کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ برطانوی وزارت داخلہ کی سکیورٹی شعبے کے سربراہ بن والاس نے کہاہے کہ عراق کا شمالی شہر موصل داعش کے دہشت گردوں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے اور شام میں داعش کا گڑھ رقہ بھی اب اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے یہی وہ حقیقت ہے جس کی وجہ سے داعش میں شامل برطانوی عناصر واپس برطانیہ کا رخ کرسکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر یہ عناصر برطانیہ واپس لوٹتے ہیں تو یہ ملک کی سکیورٹی کے لئے خطرہ ہیں۔عہدیدار نے کہا ہے کہ یہ دہشت گرد عناصر برطانیہ کی سڑکوں پر گاڑیوں اورچاقوئوں سے لوگوں پر حملے کرسکتے ہیں لیکن حکومت کی کوشش ہے کہ وہ ان عناصر کو واپس برطانیہ میں داخل نہ ہونے دے۔واضح رہے کہ 2011ء سے 2016ء کے دوران دنیا کے 120 ملکوں سے 42 ہزار سے زائد دہشت گرد عناصر داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لئے شام اور عراق گئے تھے جن میں 5ہزار سے زائد تعلق یورپی ملکوں سے ہے۔صباح نیوزکے مطابق روس نے شام میں داعش کے 200 دہشتگردوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا ہے۔ایک غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق روس کے وزارت دفاع نے دعوی کیا ہے کہ روسی فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے شام کے شہر دیرالزور میں فضائی کارروائی کی جس کے نتیجے میں بین الاقوامی کالعدم تنظیم داعش کے 200 جنگجو ہلاک ہوئے جب کہ فضائی حملے میں کالعدم تنظیم کا سازو سامان بھی تباہ ہوا ہے تاہم روسی وزارت دفاع کی جانب سے یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ کارروائی کب عمل میں لائی گئی۔شمالی کوریا نے ایک بار پھر امریکا پر حملے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جب چاہے امریکا پر حملہ کر سکتا ہے اور اس حملے سے امریکا کا کوئی علاقہ نہیں بچ سکے گا۔امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا اور امریکی فوج کے درمیان مشترکا مشقوں سے ایک روز قبل شمالی کوریا کی جانب سے یہ دھمکی سامنے آئی ہے۔شمالی کوریا نے امریکا اور جنوبی کوریا کے درمیان فوجی مشقوں کو اشتعال انگیزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ رویہ صورتحال کو نہ سنبھلنے والی ایٹمی جنگ کی جانب لے جا رہا ہے۔یاد رہے کہ اس سے قبل شمالی کوریا نے دھمکی دی تھی کہ وہ بحرالکاہل کے کنارے امریکی خطے گوآم کے فوجی اڈے کو نشانہ بنائے گا ۔ بعد ازاں شمالی کوریا کے سربراہ کم جانگ ان نے اس منصوبے کو ملتوی کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا کا رویہ دیکھنے کے بعد کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔