میں پنجاب نہیں جاﺅں گی

Aug 22, 2017

(فن و ثقافت....سیف اللہ سپرا)

پاکستان میں چند برسوں سے اچھی فلمیں بننا شروع ہوگئی ہیں۔ گزشتہ برس 30پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئیں جبکہ گزشتہ سے پیوستہ برس 12 فلمیں ریلیز ہوئیں اس سے پچھلے برس صرف چھ فلمیں ریلیز ہوئیں ، جو فلمیں پچھلے چند برسوں میں زیادہ مقبول ہوئیں ان میں ”میں ہوں شاہد آفریدی‘ بن روئے، رانگ نمبر، نامعلوم افراد، شاہ، مور، دیکھ مگر پیار سے‘ جوانی پھر نہیں آنی‘ جلیبی‘ کراچی سے لاہور ‘ لاہور سے آگے‘ منٹو‘ بلائنڈ لو‘ باکسر‘ مالک شامل ہیں۔سال 2017 کے آٹھ ماہ تقریباً گزر چکے ہیں جن میں متعدد اچھی پاکستانی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں جو لوگوں نے پسند بھی کی ہیں ان فلموں میں تھوڑا جی لے، بابو ماہی، وسل ، راستہ، چلے تھے ساتھ، یلغار اور مہرالنسا وی لب یو ،تم ہی تو ہواور چین آئے ناںشامل ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد فلمیں مکمل ہیں جن میں فلمساز سہیل خان کی فلم ”شور شرابہ اور فلمساز ہمایوں سعید کی فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ بھی شامل ہیں۔ ان مکمل فلموں کی تشہیری مہم آج کل زور شور سے جاری ہے۔ گزشتہ دنوں فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ کی کاسٹ سے فلم کے حوالے سے گفتگو ہوئی جس کے منتخب حصے قارئین کی دلچسپی کے لئے پیش کئے جارہے ہیں۔

معروف اداکار ہمایوں سعید جنہوں نے نہ صرف فلم پروڈیوس کی ہے بلکہ فلم میں ہیروکاکردار بھی ادا کیا ہے،نے فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ کے حوالے سے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میرا ایک دیرینہ خواب تھا کہ ایک ایسی فلم بناﺅں جسے دیکھنے کے لئے مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور فیملیاں بھی سینما گھروں میں جائیں اور جس طرح کی فلمیں 70 اور 80 کی دہائی میں بنتی تھیں ویسی فلم بناﺅں اُس دور میں گھریلو اور اپنے معاشرے کے مسائل کو لے کر فلمیں بنائی جاتی تھیں اور لوگ انہیں پسند بھی کرتے تھے یہی وجہ ہے کہ آج بھی نہ صرف ان فلموں کے گانے شوق سے سنے جاتے ہیں بلکہ یہ فلمیں بھی بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔ فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ بھی میں نے اسی سوچ کے تحت بنائی ہے اور اس فلم کی کہانی اپنے معاشرے سے ہی لی ہے ۔ اس فلم کے ہیرو کے کردار کا تعلق صوبہ پنجاب سے دکھایا گیا ہے جو کردار میں نے کیا ہے جبکہ ہیروئین کے کردار کا تعلق کراچی سندھ سے دکھایا گیا ہے جو معروف اداکارہ مہوش حیات نے ادا کیا ہے۔ گویا اس فلم کے ذریعے پنجاب اور سندھ کا کلچر دکھایا گیا ہے۔ فلم میں میرے اور مہوش حیات کے علاوہ سینئر اداکار سہیل احمد نے بھی کام کیا ہے۔ جو لاجواب ہے سہیل احمد کے کام کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ واقعی بہت بڑے اداکار ہیں۔ان کے علاوہ اداکارہ عروہ حسین نے بھی فلم میں بہت اچھا کام کیا ہے۔ احمد علی بٹ نے بہت عمدہ کام کیا ہے۔ فلم کا میوزک بہت سریلا ہے۔ تین گانے گلوکار شہزاد اُپل نے گائے ہیں۔ ایک گانا احمد علی بٹ نے گایا ہے۔ ایک گانا بگا نے گایا ہے۔ ایک گانا گلوکار شامی‘ ایک گانا گلوکارہ میشا شفیع اور ایک گانا انڈین سنگر نے گایا ہے۔ فلم کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے فلم کا سکرپٹ بہت اچھا ہے جو معروف رائٹر خلیل الرحمان نے لکھا ہے میں سمجھتا ہوں کہ ایک فلم میں سکرپٹ کی وہی حیثیت ہوتی ہے جو ایک عمارت میں بنیاد کی حیثیت ہوتی ہے۔ اگر کسی عمارت کی بنیاد کمزور ہوگی تو اس کمزور بنیاد پر بننے والی عمارت کبھی مضبوط نہیں ہوسکتی اور اگر بنیاد مضبوط ہوگی تو اس بنیاد پر بننے والی عمارت بھی مضبوط ہوگی۔ سکرپٹ کے بعد سب سے اہم کام ڈائریکٹر کا ہوتا ہے جو اس بنیاد پر عمارت کھڑی کرتا ہے۔ ندیم بیگ اس فلم کے ڈائریکٹر ہیں انہوں نے اچھی فلم بنائی ہے۔ اس فلم کا ٹریلر ریلیز ہوچکا ہے جس کا بہت اچھا رسپانس مل رہا ہے اور جتنا زیادہ رسپانس مل رہا ہے ہماری اس سے توقعات اتنی زیادہ ہی بڑھ رہی ہیں۔ میں اس فلم کی اس لئے تعریف نہیں کررہا کہ یہ میری فلم ہے میں اس لئے تعریف کررہا ہوں کہ یہ واقعی ایک اچھی فلم بن گئی ہے اور یہ ایک ایسی فلم ہے جو بچوں ، نوجوانوں،جوانوں، خواتین اور بوڑھوں سمیت سب لوگوں کو پسند آئے گی۔ آپ اس فلم کو گھریلو فیملی فلم کہہ سکتے ہیں۔ یہ فلم عیدالاضحی پر ریلیز ہوگی۔میں روزنامہ نوائے وقت کی وساطت سے تمام فلم بینوں کو درخواست کرتا ہوں کہ وہ یہ فلم ضرور دیکھیں تاکہ ہماری حوصلہ افزائی ہو اور ہم آئندہ بھی ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ جیسی اچھی فلمیں بنائیں۔
ٹی وی، سٹیج اور فلم کے ورسٹائل اداکار سہیل احمد نے کہا ہے کہ فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ بہت اچھی فلم ہے اور ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان میں ایک اچھی فلم بنی ہے۔ میں اس فلم کی تعریف اس لئے نہیں کررہا کہ میں نے اس فلم میں کام کیا ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ یہ واقعی ایک اچھی فلم ہے اور آپ اس کی جتنی پروموشن کرسکتے ہیں کریں تاکہ ملک میں اچھا کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ مزید اچھی فلمیں بنائیں۔ میں فلم بینوں سے بھی درخواست کروں گا کہ وہ یہ فلم ضرور دیکھیں۔
فلم کی ہیروئین مہوش حیات نے کہا ہے کہ فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی‘ ‘ میں مَیں نے ہیروئین کا کردار ادا کیا ہے اور میرے کردار کا تعلق کراچی سے دکھایا گیا ہے جبکہ میرے مدمقابل ہیرو کا کردار اداکار ہمایوں سعید نے ادا کیا ہے ان کے کردار کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اس فلم کے ذریعے دو صوبوں کی ثقافت کو اجاگرکیاگیا ہے اور پاکستان کی اپنی ثقافت کو پروموٹ کیا گیا ہے۔
اداکار احمد علی بٹ نے کہا کہ فلم میں پنجاب نہیں جاﺅں گی کا سکرپٹ خلیل الرحمان قمر نے لکھا ہے ، ندیم بیگ نے ڈائریکشن دی ہے۔ پروڈکشن ہاﺅس سکس سگما پلس کی یہ دوسری فلم ہے اس سے پہلے اس ادارے نے ”جوانی پھر نہیں آنی“ بنائی وہ بھی بہت ہٹ ہوئی اور یہ فلم بھی جو عیدالاضحی پر ریلیز ہورہی ہے ، سپرہٹ ہوگی۔
اداکارہ عروہ حسین نے فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ کے حوالے سے بتایا کہ میں نے اس فلم میں بہت دل سے کام کیا ہے کیونکہ اس فلم میں مجھے جو کردار دیا گیا ہے وہ میرے دل کے بہت قریب ہے۔ میں فلم بینوں سے کہوں گی کہ وہ یہ فلم ضرور دیکھیں مجھے امید ہے کہ وہ بہت انجوائے کریں گے۔
اداکار اظفر رحمان نے کہا کہ فلم ”میں پنجاب نہیں جاﺅں گی“ میں میرے کردار کا نام واصف ہے جو لندن میں رہتا ہے اور مہوش کا کردار اس کی گرل فرینڈ ہے۔ فلم بہت اچھی بنائی گئی ہے یہ فلم عید کا ایک تحفہ ہوگا۔
٭٭٭

مزیدخبریں