اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کا اہم اجلاس چیئرمین عمران خان کی زیرصدارت ہوا۔ مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے مطابق اجلاس میں ملکی مجموعی سیاسی صورتحال اور این اے 120 میں ضمنی انتخابات کے حوالے سے اہم امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمشن کے ضابطہ اخلاق اور ضمنی انتخابات کے نوٹیفکیشن میں غیرمنطقی نکات کی نشاندہی کی گئی اور الیکشن کمشن کی جانب سے سیاسی جماعت کے قائد پر انتخابی مہم میں شرکت پر پابندی کو بلاجواز قرار دیا گیا۔ اجلاس میں قائدین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حزب اختلاف کی جماعت کے قائد کو عوام میں جانے سے روکنے کا فیصلہ بے معنی اور ناقابل فہم ہے۔ چیئرمین تحریک انصاف پر این اے 120 کی انتخابی مہم میں شرکت پر لگائی گئی قدغن کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ راجن پور سے اغوا شدہ پولیس اہلکاروں کی بازیابی کیلئے خیبر پی کے پولیس کی خدمات پنجاب حکومت کو فراہم کرنے کی پیشکش کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اجلاس میں یہ بات بھی زیر بحث رہی کہ (ن) لیگ کی جانب سے مسلسل سیاسی مداخلت کے ذریعے پنجاب میں پولیس پیشہ وارانہ طور پر مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ اجلاس میں سندھ حکومت اور سکھر انتظامیہ کہ جانب سے 25 اگست کے جلسے کے خلاف اقدامات کی شدید مذمت کی گئی۔ اجلاس کے شرکاء کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے جلسے میں رکاوٹیں حواس باختگی کی علامت ہیں۔ اس موقع پر عمران خان نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے نیب میں پیش نہ ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نوازشریف خود کو قانون سے بالاتر نہ سمجھیں۔ دامن صاف ہے تو نیب کا سامنا کریں۔ عمران خان دو روزہ دورے پر ہفتہ کو لاہور پہنچیں گے۔ وہ اپنے قیام کے دوران این اے 120 کے ضمنی الیکشن کے حوالے سے انتخابی مہم کا جائزہ بھی لیں گے۔ عمران خان لاہور میں مختلف اپوزیشن جماعتوں سے رابطے بھی کریں گے اور این اے 120 سے اپوزیشن کا متفقہ امیدوار لانے پر مشاورت کریں گے۔ عمران خان اپوزیشن کو ڈاکٹر یاسمین راشد کی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ مزید برآں ایک بیان میں عمران خان نے کہا ہے کہ فوری اور سستے انصاف کی فراہمی میں بار اور بنچ کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ وکلاء برادری نے آزاد عدلیہ کی بڑی قربانیاں دی ہیں اور وکلاء کی جدوجہد میں تحریک انصاف شانہ بشانہ شامل تھی۔ وکلاء برادری سے میری استدعا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کو کچھ خفیہ عناصر کے رحم و کرم پر نہ چھوڑیں کیونکہ وکلاء اور معزز جج صاحبان کے درمیان تنازع کو ہوا دیکر کچھ ناقابت اندیش لوگ اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔