شدید تکلیف سے نجات کی آزمودہ دوا

دنیا بھر کے مسلمانوں پر آزمائش اور ابتلا کا دور طویل سے طویل ترہوتا جا رہا ہے مگر مسلمانوں کو اپنی تباہی و بربادی اور یہ کھیل جاری رہنے اور جاری رکھنے والوں کا وہ شعور و ادراک حاصل نہیں ہو رہا جو اس کے روکنے کی ترغیب کرنے یا عملی اقدام کرنے کا موجب بنے۔ قرآن کے اس فیصلہ کے بعد ’’تمہارے لئے جتنی اچھائیاں ہیں‘ وہ اللہ کی رحمت کے سبب ہیں اور تمہاری جتنی خرابیاں ہیں‘ وہ تمہاری اپنی پیدا کردہ ہیں۔‘‘ اپنی خرابیوں اور ان سے ہونے والے نقصانات سے چشم پوشی سے ان کے ختم ہونے کی توقع کرنا حماقت ہے۔ اگر اس کائنات کو بنانے والا مسلمانوں کیلئے بھیجی جانے والی اپنی کتاب میں واضح پیغام دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘ ان کے ہمراہ‘ ماننے والے یا امتی آپس میں ایک دوسرے کیلئے رحمدل اور کفار کیلئے متشدد ہوتے ہیں۔‘‘ مگر یہاں تو حساب الٹا ہو گیا۔ آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہی نہیں‘ خون بہانے میں ساری توانائیاں بروئے کار لا رہے ہیں اور کفار‘ مشرکین اور غیر مسلموں سے دوستی‘ محبت‘ بھائی چارے‘ ایثار‘ قربانی اور وفاشعاری کے ایسے ایسے مظاہر پیش کرتے ہیں کہ اللہ کے غضب کو کھلی دعوت دینے کے علاوہ اس کا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔ انفرادی سطح پر دین پر قائم اور اللہ کو اپنی اولین ترجیح رکھنے والے بھی اجتماعی سطح پر بے حیثیت ہی رہے۔ خواہ انہوں نے اس کیلئے شعوری جدوجہد نہ کی اور خواہ اس جدوجہد میں کسی ریاکاری‘ خودپسندی‘ انتشار یا ناقص منصوبہ بندی رہی۔ اقتدار نشینوں میں جو مسلمان ہونے کی تہمت سے بچ نہیں سکتے‘ غیر مسلموں کو اپنے لبرل اور انسان دوست ہونے کے بارے یقین دلانے کے باوجود ان کی نظروں میں مسلمان ہی رہے اور انہوں نے بلا تخصیص مسلمان ہونے کی سزا دی۔ عراق کے صدر صدام کے مخالف ہوتے تو اس کے مسلمانوں والی جرأت و ایمان کے ساتھ انہیں موت کو گلے لگانے کے بعد عراق کا پیچھا چھوڑ دیتے۔ وہاں مسلمانوں کن خون بہانا بند کر دیتے۔ عالمی ضمیر زندہ ہوتا تو وہاں مہلک ہتھیاروں کو بہانہ بنا کر لاکھوں بے گناہ اور نہتے مسلمانوں کو شہید کرنے والے امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بش اور اس کے پکے حمایتی بلکہ امریکی غلامی کا پٹہ گلے میں ڈال کر برطانیہ کی وزارت عظمیٰ پر نامزد رہنے والے ٹونی بلیئر کو کم از کم سزا دینے کیلئے بے بس اور بے حس مسلمانوں کے دل کی آواز سن کر اس میں اپنی آواز ملاتے‘ اگر لیبیا کے کرنل قذافی سے دشمنی تھی تو اسے ایک بم چلا کر ہمیشہ کیلئے خوفزدہ کر دیتے اور چھپ چھپا کر باقی زندگی گزارنے کے اشارے دینے پر لیبیا میں تباہی روک دیتے۔ اگر قذافی اور اس کے خاندان کو ختم کرنے کے بعد بھی مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ افغانستان میں اگر کمیونزم اور روس کو شکست دینا ہی مطلوب ہوتا تو اس کے بعد وہاں پر مسلمانوں کو آپس میں لڑانے اور وہاں سے پاکستان پر خودکش حملے کروانے سے باز آجاتے۔ فوجوں کو واپس لے جاتے۔ اب وہاں کس سے مقابلہ ہو رہا ہے۔
پاکستان پر ڈرون حملے کرکے افغانستان اور پاکستان کو ایک دوسرے کے خلاف اکسانے والی ساری ڈپلومیسی کا اس مسلمانوں کے خطہ میں بدامنی پھیلانے کے علاوہ اور کیا مقصد ہے۔ مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں معصوم شہریوں پر فوجی مارٹر گولے برسا برسا کر تھک گئے ہیں۔ مسلمانوں کو تباہ کرنے والے اپنے ان چھوٹے چھوٹے منصوبوں پر کروڑوں نہیں اربوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ ایران سے دشمنی اس وقت دوستی میں بدل جاتی ہے جب اسے پاکستان کے خلاف استعمال کرنا ہو۔ سعودی عرب سے دوستی بڑھ جاتی ہے جب اسے ایران‘ یا یمن کے خلاف استعمال کرنا ہو۔
شام میں تباہی و بربادی کیلئے حکمرانوں کے سامنے قوم کو کھڑا کرنے میں کس کا ہاتھ ہے۔ جمہوریت کا درد پیٹ میں مروڑ کھاتا ہے تو اسے الٹی کرکے پورے جگ پر جمہوریت سے محبت کا پیغام دیا جاتا ہے مگر ان کی یہ الٹی اپنی بدبو اورگندگی کوچھپا نہیں سکتی۔ میں ایک ایسی کتھا چھیڑ بیٹھا جس پر کالم کی بے شمار قسطیں نہ ظلم و بربریت کا صحیح طورپر احاطہ کر سکتی ہیں۔ نہ میں ہی مسلمانوں کی بے حسی بلکہ ان کے حکمرانوں کی بے حمیتی و بے غیرتی کی سطح تک پہنچنے میں کہیں ختم شد تک پہنچے کی نوید سنا سکیں گی۔ اس ساری بے حمیتی اور اجتماعی بے حسی میں بھی کہیں کہیں انفرادی سطح پر ایسی مثالیں سامنے آجاتی ہیں جو ایمان میں اضافہ یا اسے تازہ کر جاتی ہیں۔ میں ترکی کے ایک ڈاکٹر کا انٹرویو دیکھ رہا تھا جو اپنی زندگی میں کی جانے والی ایک ایسی سرجری کی فلم دکھا رہا تھا جس میں مریض کو بے ہوش کئے بغیر سرجری کی گئی۔
ایک بار جامعہ اشرفیہ لاہور کے وائس چانسلر مولانا فضل الرحیم نے بتایا کہ ان کے بڑے بھائی مفتی حسن کی ٹانگ کی سرجری تھی۔ انہوں نے بے ہوشی کی دوا لینے یا ٹیکہ لگوائے بغیر آپریشن کرنے کو کہا اور اللہ کا ذکر کرتے رہے۔ فضل الرحیم کی ثقات‘ شستگی‘ اور صاف گوئی کے باوجود ان کے متحارب سیاسی اور مسلکی لوگ اس بات کو کیونکر مانیں گے‘ میں نے بھی یہ واقعہ عام واقعات کی طرح سنا۔ نہ آپریشن کی تفصیل نہ ڈاکٹر کا نام اور نہ ہی ہسپتال کا نام پوچھا۔ انہوں نے اگر بتایا تو یاد نہ رہا۔ اب ان سے رابطہ کرکے کنفرم کرنا چاہتا تھا مگر ایسے لوگوں سے رابطہ آسان نہیں۔ جس سے رابطہ مشکل ہو طبعاًمیں اس سے رابطہ نہیں کرتا۔ ترکی کے ڈاکٹر کے انٹرویو اور انٹرویو کے دوران دکھائی جانے والی ویڈیو اور ڈاکٹر کے زاروقطار رونے کے مناظر کو بیان کرنے کیلئے مولانا فضل الرحیم صاحب کے بڑے بھائی کے بارے میں جتنا یاد تھا وہ لکھ دیا‘ تاہم میں نے اپنی جامعہ مسجد کے نوجوان پیش امام حافظ مصعب سے فون پر پوچھ لیا وہ جامعہ اشرفیہ سے فارغ التحصیل بھی ہیں‘ وہاں پڑھاتے ہیں۔ قرآن کو سمجھتے ہیں اور متراجم کو سمجھ کر پڑھتے ہیں۔
بہرحال آمدم بر سرِمطلب ترک ڈاکٹر بتا رہے تھے کہ شام میں بم لگنے سے زخمی ہونے والا ایک نوعمر شامی مسلمان شدید زخمی حالت میں آیا۔ آپریشن ضروری تھا مگر بے ہوش کرنے کا انتظام نہیں تھا۔ ڈاکٹر نے زخمی نوجوان کو آپریشن کے ناگزیر ہونے اور بے ہوشی کا انتظام نہ ہونے کی ساری تفصیل بتا دی۔ نوعمر زخمی مسلمان بولا ڈاکٹر صاحب آپریشن ضروری ہے تو آپ بسم اللہ کیجئے۔ بے ہوش کرنے کی ضرورت نہیں۔ بقائمی ہوش و حواس ‘ آپ کو اجازت بھی دیتا ہوں۔
ڈاکٹر نے آپریشن شروع کیا اور نوجوان مسلمان نے قرآن حکیم کی آیات کی تلاوت شروع کر دی۔ آپریشن تھیٹر کی میز پر ڈاکٹر آپریشن شروع کرتا ہے اور نوجوان سورۃ البینہ کی تلاوت شروع کر دیتا ہے۔ بڑے جوش وجذبے اور ایمانی حرارت سے سورہ البیّنہ کی پانچ آیات کی تلاوت کے بعدصدق اللہ پڑھتا ہے۔ پہلے سورۃ لہب کی تلاوت کر چکا تھا۔ سورۃ البیّنہ کی ان پانچ آیتوں کے بعد پھر سورۃ لہب پڑھتا ہے۔ آپریشن کامیاب ہو جاتا ہے۔ درد کی نئی دوا سامنے آجاتی ہے اور پروفیشنل سرجن انٹرویو کے دوران زاروقطار روتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ اس پر جذباتی ہونے کی مہر لگ جائے گی۔ بے ہوشی کی دوا بنانے والے اس کے خلاف ہو جائیں گے۔ سچ بتاتا ہے‘ سچ پھیلاتا ہے اور سچ سمجھاتا ہے۔ مریض اور ڈاکٹر دونوںکی درازیٔ عمر کی دعا اور ایمان میں پختگی کی دعا ہم سب کے ایمان کی حرارت بڑھا دے گی۔

ای پیپر دی نیشن