اگر ہم انسانی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہو گا کہ تقریباً ہر نبی نے کسی نہ کسی درجہ میںاس عبادت کو انجام دیا ہے۔ اسلام مرقع محاسن ہے اور تمام ادیان کا جامع چنانچہ اس میں بہت سے وہ اوصاف بھی شامل ہیں جو سابقہ ادیان میں رائج تھے۔ ان میں سے ایک قربانی بھی ہے جو سید نا آدمؑ کے دور سے چلی آتی ہے اور آج حضرت محمدﷺ کی امت اس پر عمل پیرا ہے۔ یعنی قربانی صرف امتِ محمدیہ پر ہی واجب نہیں سابقہ امتوں میں بھی کسی نہ کسی طور رائج تھی البتہ مقصد یہی تھا کہ "اللہ کا قرب حاصل کرنا" ـ۔ شریعتِ موسویہ میں قربانی کو اتنی اہمیت حاصل رہی کہ ایسا محسوس ہوتا ہے اس سے بڑھ کر کوئی افضل عبادت ان کے ہاں ہے ہی نہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ جانور کی قربانی کا یہ طریقہ محض ایک ہزار سال پہلے ایجاد ہونے والی رسم کے طور پر نہیں ہے، بلکہ یہ ایک قدیم ترین عبادت ہے اور تقریباً ہر قوم کا ایک مذہبی فریضہ ہے۔ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد بھی صریح ہے کہ "ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کے عمل کو عبادت بنایا"۔ اللہ پاک قربانی کے ذریعے اپنے بندوں میں جذبۂ ایثار دیکھنا چاہتا ہے۔
مذہب اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس کا ہر پہلو، ہر گوشہ اور ہر زاویہ حکمت اور دانائی سے مزین ہے چاہے وہ انسانی شخصیت کی تعمیر ہو یا معاشرتی تعمیر، ایثار اور قربانی کا جذبہ نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ عیدِ قرباں پوری انسانیت کے لئے ایک ایسی مثال ہے جس کا انسانی تاریخ میں ثانی نہیں ہے، جو تمام انسانیت کے لئے مشعلِ راہ بھی ہے اور ہدایت کا سرچشمہ بھی۔ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ایک غیر آباد علاقہ بھی قیامت تک کے لئے آباد ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ انسانیت اور بھائی چارہ کے اسباق بھی ساری دنیا کو وہاں سے ہمیشہ ہی ملتے رہیں گے۔ حق بات تو یہ ہے کہ اللہ پاک کو بھی یہی منظور تھا اور قیامت تک انسان کو انسانیت کے قیام کے لئے قربانی کی ضرورت اور اہمیت بھی تو سمجھائی جانی تھی۔ اگر اس حوالے سے غور کیا جائے کہ ابراہیم ؑ نے بڑھاپے کی عمر میں اپنی عزیز ترین اولاد کو بھی شیر خواری کی حالت میں اپنے جذبۂ قربانی کو پیش کرتے ہوئے بے آب و گیاہ علاقے میں نہیں چھوڑ دیا ہوتا تو شائد آج دنیا کو ہدایت اور ترقی و خوشحالی کی جانب رہنمائی نہیں مل رہی ہوتی۔ اگر حضرت اسماعیل ؑ نے عالمِ جوانی میں اللہ کے حکم کی تابعداری کرتے ہوئے اپنے والد حضرت ابراہیم ؑ کے ہاتھوں خود کو قربان کئے جانے کو بخوشی قبول نہ کر لیا ہوتا تو آج دنیا کی تاریخ کے حوالوں میں سعادت مندی اور تابعداری کی مثالیں بھلا کہاں ڈھونڈی جاتیں۔ جس کے بغیر مہذب معاشرے کے وجود کا تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ نبی پاکﷺ نے تو پوری انسانیت کے لئے غارِ حرا میں غور و فکر کے اپنے سفر سے لے کر قیامت تک کے انسانوں کی کامیابی کی اپنی فکر مندی میں اپنے پیٹ پر پتھر تک باندھے۔ آپ کے جسم سے خون بھی نکلا، آپ کے دندان مبارک بھی شہید ہوئے۔ انسانیت کی ہدایت کا ذریعہ بننے والی آپ کی پر خلوص قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ قیامت تک کے لئے مہذب معاشرے کی تشکیل و تعمیر کی رہنمائی حاصل ہو گئی۔ تاریخِ عالم کے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانیاں ہی مہذب معاشرے کو وجود بخشنے کا ذریعہ بنتی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے بر خلاف یہ پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ دنیا میں جب کبھی بھی انسان کے اندر سے قربانی کا جذبہ مفقود ہوا ہے معاشرے میں تاریکی، جہالت، ظلم و بربریت اور انارکی غالب آ گئی۔
عید الاضحیٰ کا درس بالکل واضح ہے کہ اللہ کی خوشنودی کے لئے اس کے پیغام اور خصوصاً پیغامِ انسانیت پر عمل پیرا ہو کر غریبوں، ضرورت مندوں، حاجت مندوں میں خوشیاں بانٹنے کا نام ہے۔ قربانی کا جذبہ انسان اور انسان کے درمیان کسی مادی اور حسی تفریق کو ختم کرنا ہے۔لیکن اگر موجودہ معاشرے پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو ہر جانب قربانی کے جذبہ کا فقدان نمایاں طور پر نظر آئے گا، یہاں خال خال ہی کوئی قربانی کی ضرورت اور اس کی اہمیت کو دل کی گہرائیوں میں بسائے ہوئے ملے گا۔ شائد ہی کوئی ہو گا جو اس پر عمل پیرا بھی دکھائی دے گا۔ اپنی اپنی ذات کو مستثنیٰ کر کے دوسرے کی قربانیوں کے خواہش مند تو بہت بڑی تعداد میں نظر آئیں گے لیکن اپنی ذات پر بھی اس عمل کا اطلاق ہو جائے یہ عمل کسی کے لئے قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ آج کے ماحول میں قربانی کے جذبہ سے عاری افراد کی کمی نہیں ہے بلکہ یوں کہا جانا چاہئے کہ ہر جگہ ایسے افراد کی افراط ہے ۔ حکومت سے لے کر معمولی کارندے تک اور بااثر سے لے کر معمولی انسان تک کم و بیش یہی حال ہے۔ مطلب پرستی اور خود غرضی نے گویا پورے معاشرے کو ہی اپنی تحویل میں لے لیا ہے۔ آج سنتِ ابراہیمی ادا کرتے ہوئے بھی ہمیں بندگانِ خدا کے لئے ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرنا ہو گا او ر مسلم بھائی چارے کے جذبے کے تحت بے وسیلہ لوگوں کی خبر گیری کرنا ہو گی۔ بے شک قربانی کا گوشت نہیں ہمارا تقویٰ ہی بارگاہِ ایزدی میں ہمارے شرفِ باریابی کا باعث بنے گا۔ تقویٰ کا مقصد یہ کہ قربانی کرنے والے کی نیت ، اخلاص اور جذبۂ اطاعت۔