کشمیر کو بزور ہڑپ کرنیوالی مودی سرکار سے دوطرفہ مذاکرات کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے

پاکستان کا مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کیخلاف عالمی عدالت انصاف جانے کا اعلان اور ٹرمپ اور بورس جانسن کا یہ مسئلہ خود حل کرنے کا مشورہ
پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کشمیر سے متعلق معاملہ عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کے فیصلہ کی اصولی منظوری دی گئی۔ اس سلسلہ میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ہمارا موقف واضح‘ اصولی اور ٹھوس ہے۔ تمام قانونی پہلوئوں کو مدنظر رکھ کر عالمی عدالت انصاف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انکے بقول تکنیکی امور کا جائزہ لینے کے بعد عالمی عدالت انصاف سے رجوع کیا جائیگا اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ آئندہ ماہ 9؍ ستمبر کو عالمی انسانی حقوق کمیشن میں بھی اٹھایا جائیگا۔ وزیر خارجہ نے گزشتہ روز اپنے فرانسیسی ہم منصب سے بھی رابطہ کیا اور انہیں مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے آگاہ کیا۔ فرانسیسی وزیر خارجہ نے کہا کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ فرانس کے موقع پر ان سے کشمیر کے معاملہ پر بات کرینگے۔ دوسری جانب وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے پاکستان کی جانب سے کشمیریوں کا مقدمہ عالمی فورمز پر لڑنے کا اعلان کیا اور اس امر پر زور دیا کہ عالمی برادری کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کیلئے کردار ادا کرے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان 27؍ ستمبر کو یواین جنرل اسمبلی سے خطاب کرنے جا رہے ہیں۔ وہ اس موقع پر کشمیر ایشو پر پاکستان کا موقف اجاگر کرینگے اور مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم سے اس نمائندہ عالمی فورم کو آگاہ کرینگے۔ انکے بقول کشمیر پاکستان کی پہلی دفاعی لائن ہے جس کا گیٹ وے آزاد کشمیر ہے۔ مودی ہٹلر بن کر کشمیریوں کو دیوار سے لگارہا ہے۔
ہندو انتہاء پسند مودی سرکار نے کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کے بھارتی ایجنڈا کو درحقیقت اپنے پیشروئوں سے زیادہ جارحانہ انداز میں پایۂ تکمیل کو پہنچانے کی کوشش کی ہے جس کیلئے مودی سرکار نے پہلے کشمیریوں کی آواز دبانے اور ان کا روزگار حیات تنگ کرنے کیلئے مقبوضہ کشمیر میں تمام ممکنہ جبری اقدامات کا آغاز کیا جس کے تحت مقبوضہ وادی میں مزید ایک لاکھ 80 ہزار بھارتی فوجیں بھجوا کر ہر دس کشمیریوں پر ایک فوجی تعینات کردیا اور پھر کرفیو نافذ کرکے کشمیریوں کی نقل و حرکت انکے گھروں تک محدود کردی جبکہ ان کیلئے ٹیلی فون‘ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی بھی ناممکن بنا دی تاکہ وہ بیرونی دنیا کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ کرسکیں نہ بھارتی مظالم سے انہیں آگاہ کر سکیں۔ گزشتہ دو ہفتے سے جاری کرفیو کے باعث کشمیریوں کیلئے کھانے پینے کی اشیاء ناپید ہو گئی ہیں۔ ادویات بھی انکی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں اور وہ اپنے عزیزوں کے جنازے اٹھا کر دفنانے سے بھی قاصر ہیں۔ اسی طرح انہیں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے بھی دورکردیا گیا ہے تاکہ انہیں بھارتی مظالم کیخلاف کسی قسم کے احتجاج کا موقع نہ مل سکے۔ مودی سرکار نے کرفیو کے دوران انسانی حقوق کی عالمی اور علاقائی تنظیموں کے وفود اور غیرملکی صحافیوں کے مقبوضہ کشمیر جانے پر بھی پابندیاں لگائیں اور انہیں اطلاعات تک رسائی کے حق سے محروم کیا۔ اسکے باوجود فرانسیسی صحافیوں کی ٹیم اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی چشم کشا رپورٹیں جاری کیں جن کے ذریعے دنیا کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ننگ انسانیت مظالم کی بھی خبر ہوئی اور عالمی قیادتوں کو مودی سرکار کی جنونیت کے باعث علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق سنگین خطرات کا بھی ادراک ہوا۔
حکومت پاکستان کی جانب سے بھی فوری طور پر اور مؤثر انداز میں مودی سرکار کے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور لداخ کو بھارت میں ضم کرنے کے جنونی اقدامات سے عالمی قیادتوں اور اداروں کو آگاہ کیا اور لمحہ بہ لمحہ باخبر رکھا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے خود امریکی صدر ٹرمپ سمیت عالمی قیادتوں سے ٹیلی فونک رابطے کئے‘ اسی طرح وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور سپیکر قومی اسمبلی اسدقیصر نے بھی اپنے ہم منصب عالمی لیڈران سے ٹیلی فونک رابطے اور ملاقاتیں کرکے انہیں کشمیر کے حوالے سے اٹھائے گئے بھارتی اقدام سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو لاحق ہونیوالے سنگین خطرات سے آگاہ کیا اور سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کیلئے اس عالمی فورم کے رکن ممالک کو مراسلات بھی بھجوا دیئے۔ پاکستان کی ان بھرپور کوششوں کا نتیجہ ہی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کئے جانے کی صورت میں برآمد ہوا جبکہ اس سے قبل امریکی صدر ٹرمپ وزیراعظم عمران خان کے کہنے پر بھارتی وزیراعظم مودی سے ٹیلی فونک رابطہ کرکے انہیں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روکنے کی تلقین کرچکے تھے اور کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کا اعادہ بھی کرچکے تھے۔ چین نے تو بھارتی اقدامات کیخلاف دوٹوک موقف اختیار کیا اور بھارت کو مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں نکالنے کا الٹی میٹم بھی دے دیا۔ اس فضا میں سلامتی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا تو ویٹوپاور رکھنے والے اسکے مستقل رکن ممالک میں سے بھی کسی کو بھارتی موقف کے ساتھ کھڑے ہونے کی جرأت نہ ہوئی اور پچاس سال بعد پہلی بار دوبارہ اس نمائندہ عالمی فوم پر کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا اور اس مسئلہ کے سلامتی کونسل کی قراردادوں اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی روشنی میں حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا جو بلاشبہ کشمیری عوام اور پاکستان کی بہت بڑی کامیابی تھی۔
اب پاکستان نے بھارتی اقدامات کیخلاف ہموار ہونیوالی عالمی رائے عامہ کی اسی فضا میں مقبوضہ کشمیر کا معاملہ عالمی عدالت انصاف میں اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے جو بھارت کیخلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مضبوط ترین کیس ہے۔ تاہم اس موقع پر امریکی صدر ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن کا مسئلہ کشمیر کسی عالمی فورم پر لے جانے کے بجائے پاکستان اور بھارت پر یہ مسئلہ خود حل کرنے پر زور دینا کسی صورت قرین انصاف نظر نہیں آتا کیونکہ انہیں آج اس حقیقت کا مکمل ادراک ہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث ہی یہ مسئلہ زیادہ خراب ہوا ہے جس نے خود ہی یہ مسئلہ پیدا کیا اور پھر اس مسئلہ کے حل کیلئے سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو بھی کبھی درخوراعتناء نہیں سمجھا۔ اس نے ڈھٹائی کے ساتھ مسئلہ کشمیر کو دوطرفہ مسئلہ قرار دیا اور پاکستان کو شملہ معاہدہ کے تحت یہ مسئلہ کسی بھی عالمی یا علاقائی فورم پر اٹھانے سے روک دیا جبکہ اس نے خود آج تک اس ایشو پر کسی بھی سطح کے پاکستان بھارت مذاکرات کی کبھی نوبت ہی نہیں آنے دی۔ اب مودی سرکار نے پاکستان اور مسلم دشمنی کے ایجنڈے کے عین مطابق بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35اے کو ختم کرکے مقبوضہ وادی کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کا جنونی اقدام اٹھایا ہے تو درحقیقت اس نے کشمیر کے دوطرفہ تنازعہ ہونے کے بارے میں اپنے موقف کی بھی نفی کی ہے۔ اب اسکی نگاہ بدپاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر ہے جس کی تصدیق بھارتی وزیر دفاع راجناتھ سنگھ کے گزشتہ روز کے اس بیان سے بھی ہوتی ہے کہ پاکستان سے بات مقبوضہ کشمیر نہیں‘ آزاد کشمیر پر ہوگی۔
اس بھارتی ہٹ دھرمی کی بنیاد پر اس سے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کی بھلا کیا توقع کی جا سکتی ہے جبکہ وہ پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی مسلسل بڑھا کر اور کنٹرول لائن پر شہری آبادیوں کو روزانہ کی بنیاد پر بلااشتعال بمباری اور گولیوں کا نشانہ بنا کر اس خطے کو جنگ کی آگ کی جانب دھکیل رہا ہے۔ یہ جنگ لامحالہ روایتی نہیں رہے گی اور ایٹمی جنگ بن کر اس پورے کرۂ ارض کی تباہی پر منتج ہو گی اس لئے امریکہ‘ برطانیہ اور دوسری عالمی طاقتوں کو تو آج مودی کے جنونی ہاتھ روکنے کیلئے مؤثر اقدامات اٹھانے چاہئیں چہ جائیکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم سے بے نیاز ہو کر دیرینہ مسئلہ کشمیر خود حل کرنے کیلئے پاکستان اور بھارت پر زور دیں۔ صدر ٹرمپ تین بار اس مسئلہ کے حل کیلئے ثالثی کی پیشکش کرچکے ہیں تو انہیں اس کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھانے چاہئیں جبکہ برطانوی وزیراعظم کو تو مسئلہ کشمیر کی سنگینی کا بخوبی ادراک ہے کیونکہ یہ مسئلہ برطانیہ کا ہی پیدا کردہ ہے جس نے تقسیم ہند کے وقت ہندو لیڈران سے ملی بھگت کرکے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا تھا۔ اس خطے میں مودی سرکار کی پیدا کردہ آج کی سنگین صورتحال عالمی قیادتوں سے سنجیدہ طرز عمل اختیار کرنے کی متقاضی ہے تاکہ بھارتی جنون سے علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے لاحق ہونیوالے خطرات ٹالنے کی کوئی سنجیدہ حکمت عملی طے کی جاسکے۔

ای پیپر دی نیشن