سکھر(بیورو رپورٹ)پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ میرا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے تھا معلوم ہے کہ غربت کیا ہوتی ہے, ایلیٹ کلاس کے لوگ برداشت نہیں کرتے کہ مڈل کلاس کا کوئی شخص سیاست کا اعلی مقام حاصل کرے, ان خیالات کا اظہار انہوں نے سندھ ہائی کورٹ بار سکھرمیں اپنے اعزاز میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا خورشید شاہ نے کہا کہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ میں سکھر ہائی کورٹ بار کا سینئر ممبر ہوں، سکھر ہائی کورٹ بار نے ملک میں چار بڑی مارشالاء کا مقابلہ کیا ہے, بطور سیاسی کارکن وہ رات نہیں بھولتا جب جیلر نے آکر کہا کے صبح آپ کو کوڑے مارنے کیلئے لیکر چلنا ہے اس بار کی درخواست دائر کرنے کی وجہ سے مجھے کوڑے نہیں لگے۔میں اپنی زندگی پر ایک کتاب لکھ رہا ہوں میرا تعلق مڈل کلاس گھرانے سے تھا معلوم ہے غربت کیا ہوتی ہے مڈل کلاس سے تعلق ہونا میرے لئے اعزاز کی بات ہے آج جس مقام پر ہو یہاں ایک دن میں نہیں پہنچا ہوں ایلیٹ کلاس کے لوگ برداشت نہیں کرتے کے مڈل کلاس کا کوئی شخص سیاست کا اعلی مقام حاصل کرے مجھ جیسے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے شخص کو سیاست میں لانے کا سہرا شہید ذولفقار بھٹو کو جاتا یے۔ٹیپو سلطان کی بات تو کرتے ہیں لیکن 90 سال کی اپنی تاریخ کا نہیں بتاتے بڑی گاڑیوں پر اسلحہ بردار گارڈز کے ساتھ گھومنا روایت بن گئی ہے لوگوں کو طاقت کا بڑا غرور ہے دنیا کہہ رہی مودی بھی اپنے اقتدار کی خاطر لوگوں کو جیل میں ڈال رہا ہے آپ بھی یہی کر رہے ہیں۔ الزام تراشیاں سیاستدانوں کو گندا کرنے کیلئے کی جاتی ہیں ملک پر 40 سال مارشل لاء مسلط رہی آمروں نے حکومت کی۔ملک میں 54 اور 56 کے آئیں بنے۔ایوب خان 1951 میں آئے اور دس گیارہ سال حکومت پر رہے۔ شملہ معاہدہ پر بھارت نے پاکستان سے شکست کھائی۔ بھارت نے پیشکش دی کے 90 ہزار قیدی چاہیے یا پھر 5 ہزار ایکٹر زمین ذولفقار بھٹو نے کہا کے زمین چاہیئے۔ بھٹونے اپنی کابینہ سے کہا قیدیوں کو بھارت دو دن نہیں رکھ سکتا تھا۔ سیاستدان کی یہ سوچ ہوتی ہے کہ اگلے دن معاہدے میں بھارت نے خود کہا قیدی بھی لے جائو۔آج کی لیڈر شپ کا حال یہ کے امریکہ سے واپس آتے ہیں دوسرے دن بھارت حملہ کردیتا ہے۔سیاست میں عزت کمائی ہے آج بھی سکھر کے لوگ جب گلکت بھی جاتے ہیں وہاں سکھر کا نام سن کر انکی مہمان نوازی کی جاتی ہے۔ آج میرے پیچھے پڑ گئے ہیں میں مڈل کلاس سے ہوں۔ دشمن بھی مانتے ہیں پاکستان کا آئین ملک کی آٹھ کروڑ عوام نے بنایا۔ آج کا دور ہوتا تو کبھی آئین نہیں بن سکتا تھا۔آج ایک سال میں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔حکومتی جماعت جو مجھ پر کیچڑ اچھال رہی میں نے انکے استعفیٰ منظور ہونے نہیں دیئے۔میرے متعلق کہتے ہیں 500 ارب ہیں مجھے اسکا ایک فیصد دے دو باقی سب رکھ لو۔مجھ پر الزامات لگائے جارہے ہیں, میں نے تو سرکاری زمینوں سے قبضہ چھڑوایا لینس ڈائون برج کو تاریخی ورثہ قرار دے کر اسکا متبادل برج بنا رہے تھے عمران بادشاہ نے وہ منصوبہ بند کردیا 11 ارب کی لاگت سے دریائے سندھ پر برج بنارہے تھے. برج منصوبہ رکوائے جانے کیخلاف عدالت سے رجوع کرنے جارہا ہوں۔اکائنٹ کی چھان بین ہورہی ہیں کے کہیں سے کچھ مل جائے۔ اپنے اکائونٹ میں 80 ڈالر ڈلوائے اس پر 110 ڈالر کا ٹیکس نوٹس آگیا۔ 80 ڈالر پر بھی لینے کے دینے پڑگئے۔الزامات تو لگتے رہتے ہیں کچھ ہوگا تو دونگا نہیں ہوگا تو کہاں سے دونگا۔