اسلامی ہجری کیلنڈر کی ابتدا کب ہوئی؟

Aug 22, 2020

محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے یعنی محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دئے ہیں۔ اس ماہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے ۔ ماہ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینہ کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر رمضان کے مہینہ کے بعد تم کو روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو اس لئے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے ۔اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی) جس قوم کی توبہ قبول ہوئی وہ قوم بنی اسرائیل ہے جیساکہ اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔ 
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسلامی سال کی ابتدا ماہ محرم الحرام سے ہی کیوں کی گئی؟ جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت مدینہ منورہ کی طرف ماہِ ربیع الاول میں ہوئی تھی۔ جواب سے پہلے چند ایسے امور کا ملاحظہ فرمائیں جن کے متعلق تقریباً تمام مؤرخین متفق ہیں: ۱) ہجری سال کا استعمال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہیں تھا، بلکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں صحابۂ کرام کے مشورے کے بعد ۱۷ ہجری میں شروع ہوا۔ ۲) ہجری سال کے کیلنڈر کا افتتاح اگرچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ہوا تھا ، مگر تمام بارہ اسلامی مہینوں کے نام اور ان کی ترتیب نہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے زمانے، بلکہ عرصۂ دراز سے چلی آرہی تھی اور ان بارہ مہینوں میں سے حرمت والے چار مہینوں (ذو القعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور رجب المرجب) کی تحدید بھی زمانۂ قدیم سے چلی آرہی تھی۔ اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشادفرماتا ہے: مہینوں کی گنتی اللہ کے نزدیک کتاب اللہ میں بارہ کی ہے اسی دن سے جب سے آسمان وزمین کو اس نے پیدا کیا ہے، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں۔ (سورۃ التوبہ ۳۶) ۳) اسلامی کیلنڈر (ہجری) کے افتتاح سے قبل عربوں میں مختلف واقعات سے سال کو موسوم کیا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے عربوں میں مختلف کیلنڈر رائج تھے اور ہر کیلنڈر کی ابتدا محرم الحرام سے ہی ہوتی تھی۔ 
اب جواب عرض ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب ایک نئے اسلامی کیلنڈر کو شروع کرنے کی بات آئی تو صحابۂ کرام نے اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت یا نبوت یا ہجرت ِمدینہ سے شروع کرنے کے مختلف مشورے دئے ۔ آخر میں صحابۂ کرام کے مشورہ سے ہجرت ِمدینہ منورہ کے سال کو بنیاد بناکر ایک نئے اسلامی کیلنڈر کا آغاز کیا گیا۔ یعنی ہجرت مدینہ منورہ سے پہلے تمام سالوں کو زیرو (Zero) کر دیاگیا اور ہجرتِ مدینہ منورہ کے سال کو پہلا سال تسلیم کرلیاگیا۔ رہی مہینوں کی ترتیب تو اس کو عربوں میں رائج مختلف کیلنڈر کے مطابق رکھی گئی یعنی محرم الحرام سے سال کی ابتدا۔ غرض یہ ہے کہ عربوں میں محرم الحرام کا مہینہ قدیم زمانے سے سال کا پہلا ہی مہینہ رہتا تھا، لہذا اسلامی سال کو شروع کرتے وقت اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔ اس طرح ہجرت مدینہ منورہ سے نیا اسلامی کیلنڈر تو شروع ہوگیا، مگر مہینوں کی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
سورج کے نظام سے عیسوی کیلنڈر میں ۳۶۵یا ۳۶۶ دن ہوتے ہیں، جبکہ ہجری کیلنڈر میں ۳۵۴ دن ہوتے ہیں۔ہر کیلنڈر میں ۱۲ ہی مہینے ہوتے ہیں۔ ہجری کیلنڈر میں مہینہ ۲۹ یا ۳۰ دن کا ہوتا ہے جبکہ عیسوی کیلنڈر میں سات مہینہ ۳۱ دن کے، چار ماہ ۳۰ دن اورایک ماہ ۲۸ یا ۲۹ دن کا ہوتا ہے۔ سورج اور چاند دونوں کا نظام اللہ ہی نے بنایا ہے۔ شریعت اسلامیہ میں متعدد عبادتیں ہجری کیلنڈر سے مربوط ہیں۔ دونوں کیلنڈر میں ۱۰ یا ۱۱ روز کا فرق ہونے کی وجہ سے بعض مخصوص عبادتوں کا وقت ایک موسم سے دوسرے موسم میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ یہ موسموں کی تبدیلی بھی اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے۔ 
ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ موسم کیسے تبدیل ہوجاتے ہیںاور دوسروں کو بھی اس پر غور وخوض کرنے کی دعوت دینی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ یہ صرف اور صرف اللہ کا حکم ہے جس نے متعدد موسم بنائے اور ہر موسم میں موسم کے اعتبار سے متعدد چیزیں بنائیں، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے:بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کے باری باری آنے جانے میں اُن عقل والوں کے بڑی نشانیاں ہیں۔ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرتے ہیں، اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق پر غور کرتے ہیں، (اور انہیں دیکھ کر بول اٹھتے ہیں کہ) اے ہمارے پروردگار! آپ نے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔ آپ (ایسے فضول کام سے)پاک ہیں۔ پس دوزخ کے عذاب سے بچالیجئے۔ (سورۃ آل عمران ۱۹۰ و ۱۹۱)
(جاری ہے)

مزیدخبریں