اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں لہذا ہمیں سیاسی تصفیے کی جانب بڑھنا ہوگا۔ ہم افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کے خواہشمند ہیں۔ پاکستان قیام امن کیلئے کی جانے والی عالمی کوششوں میں شراکت داری کیلئے تیار ہے اور موجودہ صورتحال میں ایک بااعتماد مصالحت کار ثابت ہو سکتا ہے۔ افغانستان میں قیام امن، علاقائی روابط کے فروغ کیلئے ہمارے مفاد میں ہے۔ پاکستان پر اب الزامات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال اور پاکستان کے نکتہ نظر کے حوالے سے ہفتہ کو الجزیرہ ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ افغانستان کی صورتحال تیزی سے بدل رہی ہے۔ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھاری قیمت ادا کی۔ ہماری 80 ہزار شہادتیں ہوئیں۔ ہمیں 150 بلین ڈالر سے زائد کا مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ ہم نے 20 لاکھ کے قریب آئی ڈی پیز کو سنبھالا۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا شاید بھول گئی کہ ہم 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں جبکہ 9/11 کا ذمہ دار بھی پاکستان نہیں۔ جب امریکہ کی جانب سے افغانستان میں آپریشن شروع کیا گیا تو ہم سے مشاورت نہیں کی گئی۔ انہوں نے کہاکہ ہماری قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا اور ہمیں جواباً ڈو مور ’’ کا طعنہ دیا جاتا رہا۔ جب ہم نے خلوص نیت کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ہم دنیا کو بتاتے رہے کہ جو حکومت افغانستان پر مسلط کی گئی ہے اسے سیاسی حمایت حاصل نہیں مگر کسی نے ہماری بات پر کان نہیں دھرے۔ ان حالات کے باوجود ہم امن کی کاوشوں میں شراکت داری کے خواہاں ہیں۔ جب دوحہ میں ایک سال تک اس اشرف غنی کی سنی جاتی رہی جو بین الافغان مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟ ہرگز نہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم کہتے رہے کہ مذاکرات اور انخلاء کے عمل کو ساتھ ساتھ چلتے رہنا چاہیے لیکن اچانک انخلاء کا فیصلہ ہماری رائے لیے بغیر کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ اب جو عالمی برادری کو چیلنج درپیش ہے وہ کابل سے ان کے شہریوں کے محفوظ انخلاء کا ہے۔ ہم اس حوالے سے بھی مثبت اور تعمیری کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہمارا کابل میں سفارت خانہ مسلسل متحرک ہے اور لوگوں کی مدد کر رہا ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے اس کردار کو بھی نہیں سراہا گیا۔ پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں بھی شامل نہیں کیا گیا جو انخلاء میں معاونت کر رہے ہیں۔ کیا اسے محض بھول چوک سمجھا جائے؟۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان نے بہت الزامات برداشت کر لیے اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ اپنی اندرونی ناکامیوں کی ذمہ داری پاکستان پر ہرگز نہ ڈالی جائے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ تاشقند میں اشرف غنی نے الزام لگایا کہ پاکستان کی جانب سے دس ہزار لوگوں کو افغانستان بھجوایا گیا ہے جو حالات کی خرابی کا باعث بن رہے ہیں۔ مجھے اس طرح کا غیر ذمہ دارانہ بیان سن کر انتہائی حیرت ہوئی۔ شاہ محمود قریشی نے کہاکہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے پاس تین لاکھ تربیت یافتہ فورس موجود تھی۔ ان کے پاس جدید آلات تھے لیکن اگر ان کے پاس لڑائی کی ہمت نہیں تھی تو کیا اس کا ذمہ دار بھی پاکستان ہے؟۔ طالبان نے آسانی کے ساتھ، بلا مزاحمت پیش قدمی کی کیونکہ انہیں مقامی سپورٹ حاصل تھی۔ انہوں نے کہاکہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا سے قبل بھی چالیس سے پنتالیس فیصد علاقہ طالبان کے زیر کنٹرول تھا۔ اشرف غنی کی حکومت اور ان کی عملداری، محض کابل اور چند شہری علاقوں تک محدود تھی۔ ہم نہیں چاہتے کہ نوے کی دہائی کی غلطیوں کو دہرایا جائے۔ ہم افغانستان میں اجتماعیت کی حامل حکومت کے خواہشمند ہیں۔ جہاں انسانی حقوق کا احترام ہو۔ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں لہذا ہمیں سیاسی تصفیے کی جانب بڑھنا ہوگا۔