عہدِ وفا کے تقاضے

Aug 22, 2021

گزشتہ دنوں ملک بھر میں 75 واں یوم آزادی روائتی جوش وخروش اور ملی جذبہ اخوت ومحبت کے ساتھ منایا گیا۔ملک بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروںمیں پُروقار تقریبات منعقد ہوئیں،جن میں یہ عہد کیا گیا کہ قوم وطن عزیز کے چپہ چپہ کی حفاظت کے لئے پُرعزم ہے اور قومی یک جہتی سے دشمن کے ناپاک عزائم کو خاک میں ملا دے گی ۔75 ویں یوم آزادی پر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 31 اور صوبائی دارالحکومتوں میں 21،21 توپوں کی سلامی دی گئی ،دن کا آغاز مساجد میں تحریک آزادی کے شہداء کے لئے قرآن خوانی اوران کے درجات کی بلندی کے لئے دعائوں سے ہواجبکہ ملک وقوم کی سلامتی ،ترقی وخوش حالی اور وطن عزیز کی حفاظت کے لئے سرحدوں میں تعینات پاک فوج کے جوانوں کی حفاظت اور فتح ونصرت کے لئے بھی دعائیں کی گئیں۔مزار قائد اور مزار اقبال پر گارڈز کی تبدیلی کی پُروقار تقریبات منعقد ہوئیں اور ملک بھر کی اہم سرکاری و نجی عمارتوں پر قومی پرچم لہرائے گئے، اس موقع پر قوم نے مقبوضہ کشمیر اور فلسطینی بھائیوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کا بھی عہد کیا۔دن بھر وطن کی فضائیں ملی نغموں سے گونجتی رہیں، اخبارات نے یوم آزادی پر خصوصی ایڈیشن شائع کیے جبکہ ملک بھر کے ٹی وی چینلوں نے یوم آزادی کے حوالے سے خصوصی پروگراموں کا اہتمام کیا۔
75 ویں یوم آزادی پر قومی سلامتی کے حوالے سے عہد و وفا خوش آئند ہے مگر ضرورت اس ملی جذبہ اخوت کو عملی جامہ پہنانے کی ہے کہ جب تک وطن عزیز کا ہر شہری اپنے مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح نہیں دے گا اس وقت تک وطن عزیز کی ترقی اور خوش حالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ وطن عزیز کو بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے مگر ارادے نیک اور عزم پختہ ہو تو کوئی چیلنج بڑا مسئلہ نہیں ہوتا ۔ملی یک جہتی ایک ایسا عزم اور راستہ ہے، جس پر چل کر ہم نہ صرف اندرونی مسائل سے نمٹ سکتے ہیں بلکہ سرحدوں پر منڈلاتے خطرات کا مقابلہ بھی کر سکتے ہیں۔اندرونی مسائل میں مہنگائی ،بے روز گاری ،لاقانونیت اور ملک میں جاری سیاسی انتشارایسے مسائل سر فہرست ہیں۔یہ مسائل متقاضی ہیں کہ بحیثیت قوم نہ صرف بائیس کروڑ عوام اپنا قبلہ درست کریں ،اپنی سوچ اور فکروعمل میں مثبت تبدیلی لائیں بلکہ حکمرانوں کو بھی چاہیے کہ انہوں نے عنانِ اقتدار سنبھالتے وقت ملک وقوم کی حفاظت کے لئے جو حلف اٹھایا تھا اس کی پاس داری کرتے ہوئے ملک بھر میں قانون کی عمل داری کو یقینی بنائیں، عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں ،ملک سے انتشار کی سیاست کے خاتمہ کے لئے افہام وتفہیم کی سیاست کو فروغ دیں۔ملک کی سیاسی برادری باہم شیروشکر ہو کر اہم قومی امورپر ایک صفحہ پر ہو گی تبھی ہم درپیش اندرونی اور بیرونی چیلنجوںکا مقابلہ کر سکتے ہیں۔حکومت اور اپوزیشن کا باہم دست وگریباں رہنا کسی طور قومی مفاد میں نہیں ،اس سیاسی انتشار کا فائدہ صرف وطن دشمن عناصر کو پہنچ رہا ہے۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ سرحدوں پر منڈلاتے خطرات سے نبرد آزما ہونے کے لئے حکومت، عوام اور عساکر پاکستان ایک صفحہ پر ہیں۔اس میں شک نہیں کہ مکار دشمن شاطرانہ چالوں سے باز نہیں آ رہا تاہم جس طرح ماضی میں ہم نے دشمن کو قدم قدم ناکو ں چنے چبوائے ہیں اسی طرح مستقبل میں بھی ہم باہمی اتحاد سے ہر میدان میں اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بھارت اس وقت خطے میں امن کی ہر کوشش کو سبوتاژ کر رہا ہے،افغانستان میں امن کا قیام یقینی بنانے میں افغان دھڑوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ تاہم دنیا دیکھ رہی ہے کہ افغانستان میں باطل سر پر پائوں رکھ کر بھاگ گیا اور حق غالب آ گیاہے،جس سے امریکہ اور بھارت سمیت تمام اسلام دشمنوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں ، ایسے موقع پر پاکستان کی اس پالیسی میں تبدیلی نہیں آنی چاہیے کہ ہم افغانستان میں قیام امن کے حمایتی ضرور ہیں مگر خواہش مند ہیں کہ وہاں جو بھی حکومت قائم ہو تمام افغان دھڑوں کی مشاورت سے ہو تاکہ دیرپا ثابت ہو اورافغانستان ترقی کر سکے کہ افغانستان میں امن ہی درا صل پاکستان میں امن کے قیام کا باعث بن سکتا ہے ، اس حوالے سے پاکستان کو کسی دبائو میں نہیں آنا چاہیے اور اس بات پر قائم رہنا چاہیے کہ اب ہم کسی پرائی جنگ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ایسے موقع پر افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے مؤقف میں کوئی بھی منفی تبدیلی خطے میں امن کے دشمنوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔اس میں شک نہیں کہ امریکہ جس حالت میں افغانستان کو چھوڑ کر گیا ہے اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن امریکہ افغانستان سے جانے کے بعد جنوبی ایشیا کی سیاست میں جس طرح کی تبدیلیاں چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ بھارت کو خطے میں اپنا قائم مقام بنا دے ،امریکہ کی یہ سیاست ناکام بنانے کے لئے پاکستان پر چونکہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے لہذا ہمیں ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا چاہیے خاص طور پر پاک افغان اور پاک امریکہ تعلقات کے حوالے سے وزیر اعظم اور وزارت خارجہ کے علاوہ وزیروں ، مشیروں اور ترجمانوںکو بے بنیاد بیانات دینے سے گریز کرنا چاہیے‘ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ پاکستان کے خلاف عالمی سازشیں زور پکڑ رہی ہیں،اس لئے خطے میں امن کے دشمن سمجھتے ہیں کہ اگر افغانستان میں امن قائم ہو گیا تو مسئلہ کشمیر کے بھی منطقی انجام تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوجائے گا نیز افغانستان میں اسلامی حکومت قائم ہونے سے پاکستان پر بھی مثبت اثرات مرتب ہونا یقینی ہے، جس سے پاکستان میں حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم ہو سکتی ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں پاکستان میں سیاسی انتشار کو ہوا دے کر ایسے حالات پیدا کر رہی ہیں کہ پاکستان معاشی طورپر ترقی نہ کر سکے،بحیثیت قوم ہمیں ان سازشوں کو سمجھنا چاہیے اور وطن عزیز کو ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے متحد ہو جانا چاہیے یہی وہ عہد ہے جس سے ہم دشمن کے عزائم کو خاک میں ملا کر پاکستان کو ترقی سے ہمکنار کر سکتے ہیں۔

مزیدخبریں