مینارِ پاکستان کے سائے تلے درندگی 

 یاد رہے کہ دیر تک 15کی کال پر رسپانس نہ کر نے والی یہ وہی پولیس ہے جو آج سے کئی سال پہلے بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کے عقبی شاہی محلے اور تھانہ ٹبی کی حدود میں کسی کو پر نہیں مارنے دیتی تھی۔ ادھر کسی’’آفس‘‘ سے کوئی نسوانی کال آئی ادھر پولیس سے بازار بھر گئے کہ شاید ’’آفسز‘‘ کی حفاظت کا دنیاوی معاوضہ ایک عورت کی عزت سے بہت زیادہ ہوتا ہے اور ہمارے ادارے تو مکمل طور پر کمرشل ہو چکے ہیں، پیسہ پھینکو اور جیسا چاہو ویسا ہی تماشا دیکھو۔ یہ بداخلاقی کرنے والے دس پندرہ تھے مگر تماشا دیکھنے والے سینکڑوں۔ اب کون ان چند ملزموں کو پہچاننے کا تردد کرے لہٰذا 400 نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے پولیس نے اپنا فرض پورا کردیا اور ویسے بھی ’’ پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی، کریں دل سے ان کی مدد آپ بھی۔ مگر شاید مینارِ پاکستان کے سائے تلے سر عام بے آبرو ہونے والی یہ لڑکی پولیس والوں کی ’’ مدد‘‘ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی۔اس لئے 15 پر کی جانے والی تین کالز کا جواب نہیں دیا گیا۔کبھی نصف درجن گارڈز پورے مینار پاکستان کے ارد گرد کی گراؤنڈز میں چڑیا کو بھی پر نہیں مارنے دیتے تھے۔ محض ایک کیئر ٹیکر مرکزی دروازے کے اندر بنے دفتر میں موجود ہوتا تھا اور ہر روز ملک بھر سے ہزاروں افراد یہاں آتے تھے۔آج پنجاب میں سینکڑوں کمپنیاں ہیں اور ’’ کھاتا ہے تو لگاتا بھی ہے ‘‘ والے میاں شہباز شریف نے ہر چیز کمپنیوں کے حوالے کر رکھی تھی اور واقفان حال کے مطابق 90 فیصد کمپنیاں آج حکومت بدل جانے کے باوجود کسی نہ کسی طرح انہی کی ہیں۔
 تاریخ اور مقام کے حوالے سے یہ ایک شرمناک اور اس معاشرے کی اخلاقی ابتری کا بہت اذیتناک ثبوت ہے۔سوال یہ نہیں کہ وہ کون تھی فلم سٹار تھی یا کوئی ٹک ٹاک سٹار ، وہ تو مکمل قومی لباس میں تھی اور لباس بھی پاکستانی پرچم کا عکاس۔ وہ کوئی عوام اور ہجوم کی ملکیت یا پبلک پراپرٹی تو نہ تھی کہ اسے اس طرح سرعام رُسوا کیا جاتا۔وہاں اگر چند بے غیرت تھے تو کافی تعداد میں موجود غیرت مند بھی اسے بچانے کی کوشش کرتے مگر بے غیرتوں پر جب حیوانیت طاری ہوجائے تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کرکے مدد کرنے کا فرض پورا کردیا۔اچھا تھا یا برا مگر ضیاء الحق کے دور میں پپو کے تین قاتلوں کو کیمپ جیل لاہور کے قریب سرعام پھانسی دی گئی تھی تو کئی سال تک کوئی بچہ اغوا نہیں ہوا تھا۔سعودی عرب میں سرعام سر قلم ہوتے ہیں۔ لہٰذا وہاں بہت زیادہ امن ہے۔ چاہئے تو یہ کہ وہیں اور اسی مینارِ پاکستان کے سائے تلے ایک ٹکٹکی اسٹینڈ لگایا جائے اور انہیں اسی طرح برہنہ کرکے کوڑے مارے جائیں کہ یہ عین اسلامی سزا ہے اور ویسے بھی نبی کریم ﷺ کے آخری خطبے کی روشنی میں دین کے مکمل ہونے کے بعد کسی کو یہ حق ہی حاصل نہیں کہ وہ کسی دینی حکم پر اعتراض کرے۔ آپ تجربہ کرلیں اور کوڑے مارنے کی ’’تقریب‘‘ کو اسی طرح نشر کریں جس طرح غیرت کے حوالے سے چند تنگدست افراد نے یہ ویڈیو نشر کی ہے۔ میں دعوی سے کہتا ہوں کہ ایک بار ایسا ہوجائے تو آئندہ کئی سال تک پنجاب میں عورتوں کیلئے امن ہی امن ہوگا۔ یہ قومی غیرت کا سوال ہے اور کہیں نہ کہیں تو اس طرح کے ظلم کے نظام کے سامنے بند باندھنا ہوگا۔ 
اہل لاہور آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور ذرا سانحہ احمد پور شرقیہ کو یاد کر لیں جب چند لوگوں نے ایک بے گناہ شخص کو آگ لگائی تھی اور پھر چند ہی ماہ بعد اسی شہر کے 110 سے زائد افراد پٹرول کی آگ سے جل گئے تھے۔ ابھی وقت ہے ملزمان کو سزا دلوا دیں اگر کوتاہی کی گئی تو غالب امکان ہے کہ یہ سزا کئی گناہ سے ضرب کھا کر اہل لاہور اور لاہور پولیس پر تقسیم نہ کر دی جائے۔ کہیں وہی دور واپس تو نہیں آرہا جب لوگ عزت کے خوف سے بیٹیاں زندہ درگور کردیتے تھے کہ آج پھر بیٹیاں بازاروں، تعلیمی اداروں حتی کہ دینی مدارس میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ عورت بھیڑ میں ہو یا تنہا، وہ تو ذمہ داری ہوتی ہے موقع نہیں۔ بیٹیوں کو کہنا چاہوں گا کہ عورت کا تو مطلب ہی ڈھکی چھپی ہوتا ہے لیکن آج کل کی لڑکیوں کو بھی اس بات کا احساس کہاں؟
…………………… (ختم شد)

ای پیپر دی نیشن